[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/08/sharaf-uddin.jpg” ]محمد شراف الدین فریاد[/author]
ملکی و غیر ملکی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی اور عمران خان پر بحث و مباحثہ کا عمل اب تک جاری ہے۔گلالئی صاحبہ نے عمران خان پر اپنے مخصوص مقصد کیلئے ہراساں کرنا کا جب الزام عائد کیا تو پہلے پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے شور مچانا شروع کردیا کہ انھیں(ن) لیگ والوں نے پیسے دیکر ان کے قائد کی کردار کشی شروع کی ہے اور اب خود عمران خان بھی ایسے ہی باتیں کررہے ہیں۔پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری اپنے قائد کی دفاع میں تو اس حد تک گئے کہ انھوں نے گزشتہ ایام ٹی وی چینلز میں آکر یہاں تک کہا کہ گلالئی صاحبہ کو جب2013 ٗ ء سے نامناسب پیغامات آرہے تھے تو وہ اب تک خاموش کیوں رہی۔۔۔۔۔؟ لگتا ہے کہ جولائی 2016میں جب انھیں مسیجز آنا بند ہوگئے تو دکھ ہوا ہوگا۔ادھر پی ٹی آئی کی خواتین رہنماؤں نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے گلالئی صاحبہ پر الزامات کی بوچھاڑ کردی کہ اس نے (ن) لیگ کے پی کے کے صدر امیر مقام سے50کروڑ روپے لیکر کردار کشی کا یہ ڈرامہ رچایا ہے۔گلالئی صاحبہ نے یہاں نہ صرف عمران خان پر نامناسب پیغامات کے الزامات لگائیں بلکہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نعیم الحق پر بھی الزام عائد کیا ہے کہ وہ بھی انھیں نامناسب مسیجزبھیجتا تھا۔پی ٹی ٓئی کے بیشتر لیڈروں نے عائشہ گلالئی کو دھمکیاں دینے شروع کردئے کہ وہ ان الزامات کے ثبوت فراہم کریں ورنہ ان کے خلاف ہتک عزت کا کیس دائر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے گھر کو بھی مسمار کرادینگے۔گزشتہ ایام ایک نجی ٹی وی چینلز میں یہ خبر شائع ہوئی کہ عائشہ گلالئی نے وہ غیر اخلاقی پیغامات کے تمام ثبوت سینئر صحافی حامد میر صاحب کودکھا دئیے ہیں۔حامد میر صاحب نے سینئر صحافی شاہ زیب خانزادہ کے ایک پروگرام میں آکر اس خبر کی تصدیق کردی اور بتایا کہ اس نے وہ تمام مسیجز دیکھ لیا ہے بلکہ شاہ زیب خانذادہ کے ایک سوال کے جواب میں حامد میر نے یہاں تک کہا کہ عمران خان کی طرف سے کئے گئے ان نامناسب پیغامات سے عائشہ گلالئی صاحبہ کے الزامات کو تقویت ملتی ہے اور وہ تمام مسیجز جنسی حراسگی کے زمرے میں آتے ہیں پھر بھی اس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔گلالئی صاحبہ کی طرف سے یہ ہنگامہ خیز راز فاش ہونے کے بعد پاکستانی سیاست میں ہلچل میچ گئی ہے اور پاکستانی طرز سیاست سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات ابھرنے لگے ہیں۔بہر حال وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے اس اہم مسلئے کو پارلیمنٹ میں اٹھایا اور سپیکر قومی اسمبلی نے ایسے سنگین نوعیت کے الزامات کی تحقیقات کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے اراکین قومی اسمبلی پر مبنی “اخلاقیات کمیٹی”بنانے کا اعلان بھی کردیا ہے اس کمیٹی کے اعلان کے فوراََ بعد پی ٹی آئی کی خواتین رہنماؤں فردوس عاشق اعوان اور ڈاکٹر یاسمین راشد کو اپنے دائیں اور بائیں بٹھا کر عائشہ احد نامی ایک اور خاتون نے پریس کانفرنس کیا اور اس نے ہمزہ شہباز شریف کی خفیہ بیوی ہونے کا دعویٰ کیا۔جس کے بعد عمران خان نے ٹوئیٹ جاری کیا کہ عائشہ احد کا معاملہ نومنتخب وزیراعظم کیلئے پہلا امتحان ہے۔اس کی تحقیقات کیلئے بھی پارلیمانی کمیٹی بننی چاہئے۔بعد ازاں ہمزہ شہباز کا بیان سامنے آیا کہ یہ تو7سال پرانا کیس ہے جسے عدالت جھوٹا قرار دیکر مسترچکی ہے۔عائشہ گلالئی کی طرف سے سنگین نوعیت کے الزامات لگانے کے فوراََ بعد7سال پرانے کیس عائشہ احد کا معاملہ سامنے لانے کا عمل تو سمجھ میں آجاتا ہے جو محض یہی دھمکی ہی ہوسکتی ہے کہ اگر تم ایسا کروگے تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔پھر عائشہ گلالئی نے بھی بیان جاری کیا کہ پی ٹی آئی والوں کو عائشہ احد اب کیوں یاد آگئی۔۔۔؟ بہر حال عائشہ احد کاجو معاملہ تھا وہ عدالتی مراحل طے کرچکا ہے۔اور عدالت اس کیس کو خارج کرچکی ہے۔عمران خان نے پہلے روز پارلیمانی کمیٹی کا خیر مقدم کیا پھر دوسرے روز پارلیمانی کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے برٹش قوانین طرز کے تحت اپنے اوپر لگائے گئے سنگین نوعیت کے الزامات کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کردیا ہے جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے۔عائشہ گلالئی جو بھی ہے پاکستانی قوم کی بیٹی ہے۔ان کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات معمولی نہیں ہیں۔ایک ایسے شخص پر جنسی حراسگی کے الزامات جو خود کومملکت اسلامی پاکستان کے مستقبل کے وزیر اعظم بننے کا دعویٰ کررہے ہیں جو اپنی تقریر شروع کرنے سے قبل قرآن پاک کی آیات بیان کررہے ہیں اور صحابہ کرامؓ و خلفائے راشدینؓ کے حوالہ جات دے رہے ہیں۔اگر عائشہ گلالئی کے الزامات حقائق پر مبنی ہیں تو پھر اسلام کے نام پر بنائے گئے ملک میں ایسے افراد کا سربراہ مملکت یا وزیر اعظم بننے کا کوئی حق نہیں بنتا ہے۔الزامات غلط ہیں تو پھر اسے غلط ثابت کرنے کیلئے پاکستانی قوانین کے مطابق ہی کسی نہ کسی فورم میں عمران خان کو جانا ہوگا۔اگر وہ برٹش قوانین طرز کی کمیٹیوں کی بات کرتے ہوئے لعت و لعل سے کام لیں گے تو اس سے معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھے گا۔اور پوری قوم عمران خان پر ہی انگلی اٹھائے گی کیونکہ ان کے خلاف عائشہ گلالئی کا یہ پہلا کیس نہیں ہے بلکہ ماضی مین بھی ان پر اس سے بھی سنگین نوعیت کے الزامات لگ چکے ہیں اور ایک امریکی ریاست کی عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے۔پاکستانی عوام نے عمران خان کے ماضی کو اس بناء پر معاف کیا تھا کہ اس ٹائم وہ سیاست کے میدان سے دور تھے۔بلکہ وہ وقت ان کی جنونی جوانی کا بھی تھا۔ابھی کے معاملات کو انھیں خود سمجھ لینا چاہئے۔رہا مسلہ عائشہ گلالئی کے الزامات کا تو انھیں رد اس لئے نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے الزامات کے شواہد پیش کرنے کا برملا اعلان کرچکی ہے۔بلکہ سینئر صحافی حامد میر صاحب کو ان شواہد کی ایک جھلک دکھا بھی چکی ہے۔عمران خان اور ان کی پارٹی والوں کے مطابق گلالئی صاحبہ جھوٹی سہی مگر حامد میر صاحب بھی ایک غیر معمولی سینئر صحافی ہیں جن پر طرفداری کی صحافت کا آج تک کوئی لیبل نہیں لگا ہے۔وہ مبشر لقمان یا حسن نثار جیسے نہیں ہیں۔ان کے قلم کمان کو پوری دنیا مانتی ہے۔اگر ایسا غیر جانبدار صحافی یہ کہے کہ گلائی صاحبہ کے پاس موجود مسیجز کے شواہد سے ان کے الزامات کو تقویت ملتی ہے تو ہر کوئی آسانی سے یہ نتیجہ اخد کرسکتا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔پھر جواد چوہدری کا یہ کہنے سے بھی شکوک بڑھ جاتے ہیں کہ عائشہ گلالئی کو مسیجز بند ہونے کا دکھ ہوا ہے۔پی ٹی آئی والوں کے ان بیانات میں بھی کوئی وزن دکھائی نہیں دے رہا ہے کہ جب گلالئی صاحبہ کو2013 ء سے جولائی2016 ء تک نامناسب پیغامات مل رہے تھے تو وہ اتنے عرصے خاموش کیوں رہی۔۔۔؟ کیونکہ وہ پہلے ہی بتا چکی ہے کہ عمران خان انھیں ساتھ ساتھ شادی کے بھی اشارے دیتے تھے۔جس سے ان کی خاموشی کی وجہ معمول ہوتی ہے۔بہر حال عمران خان جب تک ان الزامات کی دلدل سے نکل نہیں جاتے تب تک ان کی سیاسی معاملات میں دشواریاں ہیں۔ویسے بھی ان پر یہ طنز ہورہا ہے کہ انھوں نے ہی پاکستانی سیاست میں گالم گلوچ اور بازاری زبان کو متعارف کرایا ہے جو ہماری نئی نسل کیلئے اچھا پیغام نہیں ہے۔اب گلالئی صاحبہ کی طرف سے لگائے گئے سنگین نوعیت کے الزامات کی وجہ سے ہماری معاشرے کی سیاست بھی گالی بن چکی ہے۔اگر ان معاملات کو ٹھیک نہیں کیا گیا تو ہمارے معاشرے کے مہذب لوگ بالخصوص غیرت مند، خاندانی، باپردہ اور بااخلاق خواتین سیاست کے قریب تک نہیں آئیں گے جس سے ہمارے معاشرے پر صرف منفی نہیں بلکہ بہت ہی خراب اثرات پڑیں گے۔اور ہمارا سیاسی معاشرہ بگڑجائیگا۔مغرب اور یورپ کے آزاد خیال لوگ بھی اپنی ریاستوں میں اسی نوعیت کے معاملات کو پسند نہیں کرتے ہیں تو ہمارا ملک پاکستان اسلام کے نام پر تو بنا ہے جو ملک قرآن و سنت کے قوانین کے نام پر بنایا گیا وہ ملک اسلامی اقدار کی خلاف ورزی کیسے برداشت کرسکتا ہے۔۔عمران خان اور پی ٹی آئی والے مغربی ممالک یا پھر برٹش قوانین کے مطابق عمل پیرا ہوکر معاملات سلجھانے کی مثالیں دینے کے بجائے اپنے ملک کے قوانین کو فالو کرنے کی بات کریں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔پارلیمانی اخلاقیاتی کمیٹی کے قیام کا اعلان خوش آئند ہے اس کمیٹی پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہونی چاہیے کہ وہ جنسی حراسگی جیسے شرمناک و اقعات کی روک تھام سمیت ہماری سیاست کو گالم گلوچ سے پاک کرنے کیلئے بھی سفارشات مرتب کریں تاکہ ہماری نئی نسل کے اخلاقی اقدار کو بچایا جاسکے۔عمران خان اگر بے گناہ ہے تو اسے پارلیمانی اخلاقی کمیٹی میں پیش ہوکر اپنی بے گناہی کو ثابت کرنا ہوگا۔اگر عائشہ گلالئی غلط ہے تو پھر عمران خان کی ہی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کے خلاف عدالت میں کیس دائر کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے اور قوم اصل حقائق سے آگاہ ہو۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نعیم الحق کو بھی ہمارا مشورہ ہے کہ وہ بھی اپنے اوپر لگنے والے الزام کو غیر سنجیدہ نہ لیں اور خود کو تحقیقاتی عمل سے گزاریں ورنہ پوری قوم یہ سمجھے گی کہ جب انکے قائد تھک گئے تو وہ شروع ہوگئے۔