ہنزہ نیوز اردو

وقار کا ہنزہ

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

آج سے کئی سال پہلے وقار نامی ایک شخص سفر کا شرط لگائے شہر سے پہاڈوں کی طرف رخت سفر ہوا چلتے چلتے جب قراقرم ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڈوں میں پہنچا تو شاید اسے ایک الگ دنیا سے واسطہ پڑا ذوق جمال اور قدرت سے محبت کرنے والا یہ مجنون جب ہنزہ کے سحر انگیز وادی میں پہنچا تو ایسا کھویا جیسے مجنون کو لیلی ملا ہوشرط سفر تو وہ بھول گیا ساتھ ہی ساتھ سب کو بھلا بیٹھا اس کھوئے ہوئے مجنون کی تلاش میں ایک دوست آیا پھر دوسرا پھر تیسرا اور یہ تعداد سینکڑوں پھر ہزاروں اور لاکھوں تک پہنچا وقار کو تلاش کرنے والے وقار کی تلاش میں آئے اور اپنا خوبصورت یادیں وادی میں چھوڑ کر بنا وقار کو لئے واپس بھی ہوتے گئے اور یہ سلسلہ سالانہ بڑھتا گیا اور بڑھتا رہے گا ۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہنزہ سے سیاحت کی دیوی بری طرح ناراض تھی ہوٹلز ویران اور ریسٹوران سنسان تھے ہیندی کرافٹس کے کاروباری اپنا بوری بستر لپیٹ کر کوچ پر مجبور تھے اتفاقا ایک دن میں کریم آباد کی زیرو پوائنٹ کسی کام سے پہنچا تو مہمان نوازی کے شعبے سے منسلک ایک بزرگ حیدر بیگ مرحوم کسی اجنبی مہمان کے انتظار میں کھڑے تھے مرحوم ہر دل عزیز اور مخلص انسان تھے ازراہ مزاق میں نے مرحوم سے پوچھا چاچا سیاح تو آنے سے گئے آخر کس کا انتظار ہے کہنے لگا میر ا ایک خاص مہمان آنے والا ہے وقار احمد ۔۔ اس دن میں وقار کے نام سے واقف ہوا وہ وقار جو اس بحران میں حیدر بیگ مرحوم جیسے مہمان نواز کیلئے شاید امید کا کرن تھا ۔
وقار احمد نے جس چھوٹے سے سیاحت کے درخت کو ان وادیوں میں لگانے کی کوشش کی تھی وہ اب ایک تناور درخت بن چکا ہے ایک نجی ٹی وی چینل پر سفر شرط ہے کے مقبول ترین سلسلے سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والا وقار اب بھی تھکا نہیں ہے شاید اس پروگرام میں ایک وقار سفر پر نکلا تھا اب لاکھوں وقار سفر کو شرط مان کر دیوانہ وار وادی میں آتے ہیں سچ ہے کہ قدرت محبت کرنے والے عظیم ہوتے ہیں وہ اپنا سب کچھ لٹا کر بھی مطمیئن اور خوش نظر آتے ہیں اور قدرت سے محبت کرنے والوں سے قدرت بھی محبت کرتا ہے ۔
ہنزہ کے دلکش وادیوں میں کھو جانے والا وقار سے جب بھی آپکا ملاقات ہوں توآپ ضرور ان سے پوچھئے گا شاید وہ آپ کو بتا پائے مگر مجھے مکمل یقین ہے کہ وقار کو بھی شاید پتہ نہ ہو کہ ہنزہ کو وقار سے محبت ہے یا وقار کو ہنزہ سے ۔

مزید دریافت کریں۔