جناب حافظ حفیظ الرحمن صدر مسلم لیگ نون وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی۔جناب حافظ صاحب بڑے ادب و احترام اور اس احساس کے ساتھ کہ آپکے پاس وقت کی بہت کمی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے وقت کی ضیاع کو بچانے کیلئے تمام وزراء پارلیمانی سکریٹریزاور ممبران کونسل کو ہدایت جاری کی ہے کہ ملاقات کیلئے ایک دن پہلے وزیر اعلیٰ سیکٹرٹریٹ سے اجازت نامہ اور وقت مانگاجائے۔ لیکن اس بحیثیت عوام اس امید کے ساتھ آپکی توجہ ضلع کھرمنگ موضع منٹھوکھا کے مسائل کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ جناب عالی ویسے تو یہ ایک چھوٹا مسلہ ہے مگر اس مسلے کے پیچھے سیاست دانوں کی من مانی ، ادارے کی نااہلی اور ادارے میں کام کرنے والے نچلی سطح کے ملازمین کی کرپشن کہانی چھپی ہوئی ہے۔آپ کو چونکہ ہر دفعہ یہی کہتے سنا ہے کہ آپ عوام کو گھر کی دہلیز پر انصاف دینا چاہتے ہیں لہذا سوچا کہ کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے کیونکہ اسمعمولی سی عوامی مسائل کیلئے راقم نے ذاتی طور سپیکر ناشاد،وزیر بلدیات،ڈی سی کھرمنگ، چیف انجینئر سے لیکر لوکل افسران تک کے دروازوں کو کھٹکھٹایا لیکن جب رہنما ہی رہزنی کرنے والوں کی معاونت کرے توعام آدمی کی فریاد کون سُنے؟۔ جناب عالی ایسا لگتا ہے کہ یہاں کام کروانے کیلئے پارٹی کا بندہ یا کرپشن میں تجربہ ہونا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے راقم ان دونوں کام کیلئے ان فٹ ہوں۔ جناب حافظ صاحب معافی چاہتا ہوں تمہید طویل ہوگیا لیکن مکمل تفصیل سامنے رکھنا بھی تو ضروری ہے۔ لہذا عرض یہ ہے کہ محکمہ پی ڈبلیو ڈی اور پی ایچ ای کے تحت ایک واٹر شیڈ پروگرام منٹھوکھا ندی ڈسٹرک کھرمنگ بلتستان میں منظور ہوا لیکن اس واٹر شید کی تعمیر کیلئے سرکاری قواعد ضوابط اور عوامی ضرروریات کو پس پشت ڈال کر مکمل سیاسی بنیاد وں پر کچھ عناصر نے سپیکر ناشاد کی ملی بھگت سے متاثرہ مقامات کو نظرانداز کرکے سرکاری پیسوں کو ذاتی مفاد کیلئے ہدیہ سمجھ کر استعمال کیا۔یوں متاثرہ کاشتکاران منٹھوکھا چھلونگ کا شک یقین میں بدل دیا کہ یہاں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا قانون چلتا ہے۔جناب حافظ صاحب مجھے معلوم ہے کہ ہمارے خطے قانون کا نفاذ ایک مذاق سے کم نہیں لیکن پھر بھی جس نظام کے تحت معاشرہ کام کر رہے ہیں کم از کم کچھ تو عوام کومعلوم ہونا چاہئے کہ یہاں حکومت نامی کوئی چیز موجود بھی ہے۔ جناب حافظ صاحب منٹھوکھا آبشار سے تا لب دریا ئے سندھ چار کلو میٹر پر محیط اس ندی پر گزشتہ دہائیوں سے واٹر شیڈ کی تعمیر کے نام پر سرکاری اور غیر سرکاری فنڈز کی بندر بانٹ ہورہی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ۔یہ مقام چونکہ سیاحت کے حوالے سے بھی ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں اور پاکستان بھر سے لوگ گرمیوں کے موسم میں یہاں سیاحت کی غرض سے آتے ہیں یہ الگ بحث ہے کہ محکمہ سیاحت کی نااہلی کے سبب مقامی لوگوں اور معاشرے پر اس حوالے سے کس طرح کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔لیکن اگر اس ندی کے اطراف ایک جامع پالیسی کے تحت حفاظتی واٹر شیڈ لگائیں تو یہاں زراعت اور فروٹ نرسری اور فیشنگ کے حوالے سے کثیر ذرائع موجود ہیں مگر کچھ افراد کیلئے چونکہ اس ندی پر گرمیوں کے موسم میں طوفانی طغیان کا آنا ایک نعمت سے کم نہیں لہذا عوامی املاک اور زرعی زمینیں پانی برد ہونے پر شادیانے بجانایہاں ایک عام سی بات ہے کیونکہ انہی افراد کیلئے یہ ندی ایک فکس ڈپازٹ پروجیکٹ کی طرح ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ندی کے کاشتکار ہر سال محنت کرکے سیلاب زدہ زمینوں کو بحال کرتے ہیں اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے سرکاری فنڈز کا دکھاوے کیلئے استعمال کرکے گرمیوں کے سیزن ساری زمینیں پھر زیر آب آجاتی ہے۔ لہذا گزارش ہے کہ حالیہ پروجیکٹ کے حوالے سے متاثریں کے خدشات اور شکایات کے پیش نظر بے ضابطگیوں کے حوالے سے ذمہ دران سے پوچھا جائے ۔اوراس ندی پر گزشتہ بیس سالوں میں خرچ ہونے سرکاری اور غیر سرکاری فنڈز میں کرپشن کے حوالے سے محکمہ نیپ کے ذریعے تحقیقات کرائیں اورسرکاری خزانے کو ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرنے والوں اور عوامی نمائندے سے پوچھا جائے کہ کیا سرکاری فنڈز صرف چند افراد کیلئے مختص ہیں یا سرکاری پروجیکٹ عوامی فلاح پر خرچہ کرنا اور اس حوالے سے دیانتداری کے ساتھ فرائض کی انجام دہی بھی محکمہ پی ڈبیلو ڈی کے افسران کی ذمہ داریوں میں شاملہیں۔ کیونکہ موجودہ صورت حال میں ایسا لگتا ہے کہ یہاں ذمہ دار افسران اپنی ذمہ داریوں کو سیاسی اثررسوخ اور دوستی دشمنی کی بنیاد پر نبا رہے ہیں۔لہذاامید کرتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ اس حوالے سے خصوصی کمیٹی تشکیل دیکر متاثرین منٹھوکھا چھلونگ کو انصاف دلائیں گے۔ وسلام علیکم
از۔ شیرعلی انجم
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ