ہنزہ نیوز اردو

نیم حکیم خطرہ جان

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

اگر انسان ضرورت کے سامنے محتاج نہ ہوتا تو زندگی گزارنے کے لیے دوسروں کی ضرورت بھی نہ ہوتی مگر آج کی دنیا میں ہر لمحے کو گزارنے کے لیئے انسان ضرورت اور وقت کے سامنے بے بس اور محتاج ہیں ،ضرورت کا تعین بھی انسان ہی کرتا ہیں لیکن وقت کا نہیں، اور انسان ہی اس میں سب سے بڑا کردار ہوتا ہیں ان تمام مراحل سے گزر کروہی انسان زندگی میں ایک قدم آگے بڑھتا ہیں،سوال یہ ہیں کہ انسان یہ سب کیوں کرتا ہیں تو اس کا جواب آسان نہیں کیوں کہ یہ سوال خود سب سے بڑا سوال ہیں۔
چند دن پہلے اپنے ابائی علاقے میں ایک پروگرام میں بیٹھے تقریر سن رہا تھا مقریر کا کہنا تھا کہ ’’ آج کی دنیا میں مال و دولت یعنی پیسہ کے علاوہ زندگی گزارنا مشکل ہیں کیونکہ نوجوان نسل تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہیں اس لیے نوجوانوں کو تعلیم پر ٹائیم ضائع کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ کاروبار کی طرف مائل ہونی چاہیے ‘‘ ۔۔بہت خوب۔۔اس بات پر کچھ لوگوں نے سر ہلایا اور کچھ لوگ ہنسے اور کچھ لوگ خاموشی سے سُنتے رہے لیکن مجھے حیرت ہوئی کیونکہ اتنے بڑے مجمعے میں اس آدمی کو بات کرنے کی اجازت کیوں دی گئی تھی اور کس نے دی کیونکہ یہاں پر ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے مستند لوگ موجود تھے، تو جناب یہاں پر بات ہوس،لالچ،اور کم علمی کی ہیں پیسے اور لالچ کی ہوس میں مست اور علم کی افادیت اور حکمت سے ناواقف، مال و دولت کی آنکھ سے اس دنیا کو دیکھنے والا اس شخص کو کیا پتہ کہ دنیامیں فلاسفرز، دانشور، ادیب، سائنسدان ،مفکر،مصنف،وغیرہ وغیرہ کی ضرورت پھر کیوں ہیں۔
گلگت بلتستان اپنے ثقافت اور رسم و رواج کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہیں اور ہر سال ہزاروں سیاح اس علاقے کا رخ کرتے ہیں صرف اورصرف اس علاقے کی خوبصورتی اور ثقافت کو دیکھنے مگر پچھلے چند سالوں سے یہاں کی ثقافت اور رسم و رواج کے طور و طریقہ بدل گئی ہیں لوگ مادہ پرست ہو گئے ہیں لوگوں کے نزدیک ہر چیز مال و دولت اور زر ہیں لوگ آج کی دنیا کو دولت کی نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کی تربیت اس قسم کی ہوگئی ہیں ان کو یہ سکھایا گیا ہیں کہ آج کی دنیا میں ترقی کرنی ہو تو پیسہ روپیہ والاراستہ اختیار کروچاہے یہ جائز طریقے سے ہوں یا ناجائز ، حلال ہو یا حرام کوئی بات نہیں صرف پیسہ ہوں،ان لوگوں کی سوچ کے مطابق ہم کھاتے ہیں پیسے سے، علاج پیسے سے کرتے ہیں، روزگار بھی پیسے سے حاصل کرتے ہیں، ڈگری پیسے سے حاصل کرتے ہیںیعنی ہر چیز میں پیسے شامل ہیں وغیرہ وغیرہ اور ان ہی لوگوں کا کہنا ہیں کہ آج کی دنیا میں پیسے کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہیں ،چلے اس بات کو مانتے ہیں لیکن یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہیں کہ کچھ دہائی پہلے جب گلگت بلتستان پوری طرح سے دنیا کے سامنے عیاں نہیں ہوا تھااور یہاں پر بھوک اور افلاس تھا تو کیا لوگ پیسے کے بغیر مر رہے تھے، کیا اس وقت پیسے کے بغیر زندگی نہیں گزر سکتی تھی ۔۔۔نہیں جناب ہر گز نہیں اس وقت کا پیسہ محنت اور پیار و محبت تھا اس وقت کا پیسہ ہمدردی تھی اس وقت کا پیسہ برداشت تھااس وقت کا پیسہ دوسروں کی مدد کرنا تھا اس وقت کا پیسہ زراعت اور مال میوشیوں کے ساتھ محنت لیکن اپنے ثقافت، رسم و رواج اور اقدار کے مطابق حلال اور جائز طریقے سے کماتے تھے وغیرہ وغیرہ تو فرق صرف اتنا ہیں کی اُس وقت عمر کے لحاظ سے ایک دوسرے کی عزت و تمیز کرتے تھے لیکن اس وقت جس کے پا س مال و دولت ہیں اس کو عزت دی جاتی ہیں پہلے زمانے میں کسی بھی تقریب یا دوسرے کاموں میں عمرکے لحاظ سے ،علم و دانش یا رتبہ کے لحاظ سے عزت دی جاتی تھی جو کہ ایک مہذب معاشرے کی پہچان ہیں لیکن اب اس کا الٹ ہوا ہیں اب جس کے پاس پیسہ مال و دولت ہیں اسے معاشرے میں ہر رتبہ دینے کو تیار ہیں جو کہ ایک بیمار ذہنیت اور کمزور معاشرے کی پہچان ہیں ۔۔۔ہاں ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ آج کی دنیا پہلے کی نسبت سو فیصد بدل چکی ہیں پہلے کی ضروریات اس وقت کی ضروریات سے بلکل مختلف ہیں اُس وقت کے حالات اور اس وقت کے حالات میں بہت فرق ہیں ، لیکن ہم ذہنوں میں جدید دور اور ترقی کو لے کر اپنے معاشرے کو اور اپنے رسم و رواج، ثقافت اور اقدار کو نقصان پہنچا رہے ہیں ہم معاشرے میں اپنی پہچان اور اپنی دولت کی تشہیر کے لیے معاشرے کے تقدوس کو پامال کر رہے ہیں ہمارے معاشرہ آج اس سطح پر پہنچ گئی ہیں کہ اگر کوئی شخص قرض لے کر ٹھوٹی پھوٹی گاڈی خریدے تو اس کی واہ واہ ہوتی ہیں پھر اگر کوئی شخص کسی یونیورسٹی سے ڈگری لے کر آتا ہیں تو اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔اب سوال یہ ہیں کی ہمیں کرنا کیا ہیں؟تو اس کا جواب یقیناًعلم ہی ہیں ہم نے ایک ایسے ماحول کو پیدا کرنا ہیں جہاں آزادی سے علمی مکالمے کے فروغ کی بات ہواورمعاشرہ ایک علمی سوچ اور امید کو نئی نسل میں منتقل کریں۔ہم سب سے پہلے علم کے زیور سے آراستہ ہو جائے پھر اسی علم سے وہ پیغام پھیلائیں جو کہ کسی بھی مذہب، مسلک، رنگ و نسل ، عقیدے اور فرقے کے لیئے قابل قبول ہو۔ شروع میں جس شخص کی بات ہو رہا تھا کہ انھیں کس نے موقع یا اجازت دی تو اس کا جواب مال و دولت یعنی پیسہ ہیں یقناَپیسے نے انھیں اجازت دی تھی کی آپ اس مجمعے میں اپنے خیالات کا اظہار کریں اور ان کا خیالات جو میں نے آپ لوگوں کے لیئے پیش کی ہیں اگر خیال تک رہے تو بہتر ہوگاکیونکہ معاشرے کے اندر یہ تفریق دور اندیشی نہیں اور کسی نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہیں۔
ایسے معاشرے کو چلانے والے سنبھالنے والے اور ان کے احکامات پر عمل کرنے والے نیم حکیم خطرہ جان سے کم نہیں کیونکہ جس معاشرے میں علم کے زیور سے آراستہ لوگوں کو نظر انداز کر کے صرف پیسہ اور عقل کے اندھے لوگوں کو معاشرے کے لگام دی جائے تو اس معاشرے میں علم اور عقل کی توہین ہوگی اس تفریق کو ختم کرواور معاشرتی انصاف کو قائم کرو اور معاشرے کے نوجوان نسل کو وقت اور حالات کے مطابق صیح علم دو اور بہتر رہنمائی کرو ۔آج کے دور اور آنے والے دور کے لیئے علم اور دولت کی ضرورت اور فرق کو سمجھ کر معاشرے میں ہر سطح پر ان لوگوں کا انتخاب کرو جو آپ کے آج اور آنے والے کل کو سنبھال سکے ،نہ کہ وہ لوگ جو آپ کے مستقبل کو پیسے کی خاطر تاریکی میں بدل دیں آج کل ایسے لوگوں کا ٹولہ کچھ زیادہ سرگرم ہیں ۔
اگر اب بھی اس معاشرے میں علم کو مواقع نہیں دیا گیا اور نیم حکیم خطرہ جان کو دولت کے زور پر آزاد چھوڈ دیا تو یاد رکھنا معاشرے میں عدم تحفظ جنم لے گی، معاشرہ اپنی پہچان کھو دیگا، برداشت ختم ہوگی اور انسانی خصلت دب جائے گی اور پھر نیم حکیم وحشت کی روپ میں عیاں ہونگے اُس کی سوچ اور مقصد صرف اور صرف مال و دولت، اپنی ذاتی مشہوری، خود غرضی، حرس ، لالچ، ہوس، اور بے حسی ہیں ۔
تعلیم دنیا میں قوموں کی اُروج کے لیئے بنیادی کردار ادا کرتا ہیں اور اہمیت کے حامل ہوتا ہیں تعلیم کے میدان میں کوئی بھی ملک جتنا بہتر ہوگاتو اس ملک کے ہر شعبے میں بہتری نظر آئے گی ۔
ہر معاشرہ اپنے مستقبل کی ترقی کے لیئے اپنی ضرورت کو دیکھتا ہیں تو یقیناًاس وقت گلگت بلتستان کی ضرورت تعلیم ہیں تو آئے گلگت بلتستان میں ہر سطح پر علم و شعور کو عا م کریں اور اپنے آنے والے دور کے لیے صیح لیڈر کا انتخاب کریں اور نئی نسل کو وقت اور حالات کے مطابق بہتر رہنمائی کریں۔
میرا ان لوگوں سے سوال ہیں کہ صرف اتنا بتا دیجیے کہ آج کی دنیا علم پر چل رہی ہیںیا پیسے پراور پھر اپنا فیصلہ کریں کی مستقبل علم کی ہیں یا پیسے کی ؟

تحریر: دیدار علی شاہ

مزید دریافت کریں۔