ہنزہ نیوز اردو

میں ناچوں آج چھم چھم چھم۔

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

مہر علی شہاب

ایک دن کسی کام سے بازار کی طرف نکلا تو راستے میں کچھ عجیب و غریب واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ میں چاہتا ھوں کہ وہ آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ گھر سے نکلتے ھوے دل بڑا بے چین تھا۔ میرے جسم میں عجیب سی کیفیت پیدا ھوئی تھی۔ چھٹے حس نے پہلے ہی بتایا تھا کہ آج مجھے کچھ عجیب و غریب واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خیر معمول کی طرح اپنے پروردگا کا نام لیکر گھر سے نکلا اور یہ دعا پڑھی کہ میرا کام جلد از جلد ھوجاۓ اور بروقت گھر پہنچنا نصیب ہو۔
جب میں قراقرم ہائی وے پہ پہنچا تو بڑا خوف کا سماں تھا۔ ہٹو، بچو، بھاگو کی صدا سنائی دینے لگی۔ دور دور تک کوئی گاڈی نظر نہیں آرہی تھی۔ میں ایک دم پریشان ھوا اور سوچنے لگا کہ آج یہ ساری گاڑیاں کہاں گیئں اور یہ کیا ھو رہا ھے۔ ایک پولیس روڈ پہ کھڑا تھا اور حکم صادر کررہا تھا کہ روڈ سے ہٹ جاؤ گھر جاؤ یا دیوار کے پیچھے چھپ جاؤ۔ میں بڑا پریشان ھوا اور دل ہی دل میں پریشانی کے اس عالم میں سوچنے لگا، خدایا میرے اس پرامن اور خوشحال وادی میں اچانک یہ کیا ھوگیا۔ میں نے کوشش کی کہ پولیس کے پاس جاکر حالات کے بارے میں کچھ دریافت کروں لیکن مجھ سے چلا نہیں جارہا تھا۔ ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ پاؤں میں چلنے کی سکت نہیں تھی۔ خیر بڑے مشکل سے اس پولیس کے پاس پہنچ پایا۔ مجھ سے بولا نہیں جارہا تھا۔ گلہ خوشک ھوگیا تھا، آواز بیٹھ گی تھی۔ گھبرائی ھوئی آواز میں پوچھا جناب یہ کیا ھو گیا ھے۔ اتنے میں غصے سے بولا کوئی بڑے صاحب آنے والے ہیں۔ یہ الفاظ اس کے منہ سے سنتے ہی میری ہسی پھوٹ پڑی اور ساتھ ساتھ غصہ بھی آگیا۔ میری ہسی دیکھ کر وہ بے چارہ آگ بگولہ ھوگیا۔ مجھے کہا ادھر سے ہٹ جاؤ اس دیوار کے پیچھے چھپ جاؤ۔ آخر وہ کیا کرتا اس کی بھی ڈیوٹی لگی تھی وہ اپنا فرض ادا کررہا تھا۔ میں اس کی نظروں سے چھتے ھوئے آگے نکل پڑا۔
کچھ قدم آگے چلا تھا کہ دوڑ کے کنارے دور ایک ادیڑھ عمر کی عورت اپنی بیٹی کے ساتھ نظر آئی۔ وہ لڑکی تقریباً چھے سال کی تھی۔ بچی کے ہاتھ میں گتہ اور ایک قلم تھا شاید اس کے امتحان تھا۔ اس بڑے صاحب کے پروٹوکول کیلے گاڑیوں کی آمد و رفت بند کردی گئی تھی۔ وہ بے چاری خوف کے عالم میں تھی کہ وقت پہ کمرہ امتحان پہنچ پاۓ گی کہ نہیں۔ اگر نہیں پہنچ پائی تو اس نے جو محنت کی ھے اس پہ پانی پھیر جائیگا۔ بہر حال میں نے اپنے پروردگار کے حضور دعا کی کہ اے پروردگار اس کو اپنے کمرہ امتحان میں تو ہی صحیح و سلامت وقت پہ پہنچنے میں اس کی مدد کرسکتا ھے اور میں نے اپنا سفر جاری رکھا۔
کچھ قدم اور چلنے کے بعد دیکھا تو مجھے ایک باغ میں، درخت کے سائے میں سکول کے یونیفارم میں ملبوس کچھ بچے نظر آۓ۔ میں نے اندازہ لگایا کہ یہ لوگ بھی سکول کیلے نکلے تھے اور ان بے چاروں کے ساتھ بھی وہی ھوا ھے جو اس بچی کے ساتھ ھوا ھے۔ جب میں ان کے قریب پہنچ کے دیکھا تو وہ آپس میں خوش گپیاں کررہے تھے۔ مجھے اتنی سنائی دی کہ ایک لڑکا کہ رہا تھا چلو یار آج ٹسٹ تھا اس سے تو بچ گئے۔ وہ بڑا خوش تھا۔ اسی کی خوشی دیکھ کر مجھے بھی خوشی ھوئی چلو یار آج تو ان لوگوں کو ٹیچر کی ڈانٹ تو نہیں کھانی پڑے گی اور میں نے اپنا سفر جاری رکھا۔
تھوڑی دیر اور چلنے کے بعد دیکھا تو ایگ گاڈی کے کے ایچ پہ چڑھنے کی کوشش کررہی تھی لیکن اس کے سامنے ایک پولیس والا کھڑا تھا کوشش کررہا تھا کہ کسی نہ کسی طرح وہ گاڑی شاہراہِ قراقرم پہ چڑھ نہ پائے۔ جوں جوں اس گاڑی کے قریب ھوتا گیا تو مجھے اس گاڑی میں سے ایک خاتون کی آواز سنائی دی جو اس پولیس والے کے ساتھ بحث و تکرار کررہی تھی۔ جب اور قریب ھو کے دیکھا تو اس گاڑی میں اس کے ساتھ اس کے دو بچے بھی تھے۔ اس کی باتوں سے پتہ چلا کہ وہ تدریسی عمل سے منسلک تھیں۔ وہ سکول جانے نکلی تھی لیکن صدر صاحب کے پروٹوکول کی وجہ سے اسے شاہراہ قراقرم استعمال کرنے نہیں دیا جارہا تھا۔ وہ کہ رہی تھی مجھے سکول جانا ھے اگر میں سکول نہیں جا سکی تو میرے سٹوڈنٹ کا آج کا دن ضایع ھوگا۔ خیر میں ادھر سے بھی چپ چاپ آگے نکلا اور اپنا سفر جاری رکھا۔

میں اپنی دنیا میں مست کچھ پرانی یادوں میں گم سم چل رہا تھا اچانک مجھے کہی سے گن گنانے کی آواز سنائی دی۔ سوچا کوئی پاگل ہی ھوگا جو اس خوف کے عالم میں دنیا سے بے خبر مستی کے عالم میں گنگنا رہا ھے۔ میں رک گیا ادھر ادھر دیکھا تو کچھ نظر نہیں آیا۔ علاقہ بالکل سنسان تھا۔ سڑک کے دونوں طرف درخت ہی درخت تھے لیکن وہ گنگنانے کی آواز لگاتار سنائی دے رہی تھی۔ آواز شمال کی طرف سے آرہی تھی، کسی بزرگ کے گن گنانے کی آواز تھی۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ شاید اس بزرگ کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ھوگا جو اسے یاد کر کے گنگنا رہا ھے۔ پھر اچانک یہ خیال آیا شاید جوانی میں اس کی محبوبہ اسے چھوڑ گئ ھو گی اکثر فرصت کے لمحوں میں اور تنہائی میں اسے یاد کرکے گنگناتا ھوگا۔ جس سمت سے آواز آرہی تھی اس کی کھوج میں نکل پڑا۔ کافی مشقت کے بعد آخر اس بزرگ کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ھوگیا۔ مجھے اس بزرگ کا پیٹ نظر آیا۔ اتنے قریب پہنچ کے باوجود مجھے اس کی گن گنا ہٹ سمجھ نہیں پایا۔ میں رک گیا اور بلکل چھوٹے چھوٹے قدم لینے لگا۔ بڑی احتیاط سے اس کے اور قریب ھونے لگا کوشش کیا کہ قدموں کی آہٹ اسے سنائی نہ دے۔ میں بلکل اس کے پاس پہنچ کر چپ چاپ کھڑا ہوگیا اور غور سے اسے سنے لگا۔ میرے اندازے کے مطابق 86 سال کا تھا۔ بزرگ نے سفید لباس زیب تن کیا ھوا تھا۔ اس کے اوپر سفید چوغہ پہنا ھوا تھا جس پر کسی باکمال عورت نے اپنے ہاتھ سے اس پر سلائی کرکے خوبصورت پھول بنائے تھے۔ برگ کے سر پر سفید دیسی ٹوپی تھی جو اکثر مقامی لوگ پہنتے ہیں اس ٹوپی میں گمبوری ( شاٹی) لگی ھوئی تھی۔ اس کی آواز میں عجیب بے چینی اور خوشی تھی۔ وہ لگاتار گنگنا رہا تھا ساتھ ہی ساتھ آنے پاؤں کو بھی جنبش دے رہا تھا۔ آخر کار اتنا اس کے قریب گیا کہ ھم دونوں کے درمیان فاصلہ بالکل ختم ھوگیا۔ تب مجھے سمجھ آیا وہ گنگنا رہا تھا ” میں ناچوں آج چھم چھم چھم ۔،،،،،،، چھم چھم چھم” پھر میں نے اندازہ لگایا کہ شام کو ایک عظیم و شان محفل سجھنے والی ھے جس میں بڑے صاحب مہمان خصوصی ہونگے اور یہ بزرگ اس کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کیلئے بڑی بے چینی سے انتظار کررہا تھا اور ساتھ ساتھ تھوڑا پریشان بھی تھا اپنی اداؤں سے بڑے صاحب کا دل جیت پائیگا کہ نہیں۔

مزید دریافت کریں۔