ہنزہ نیوز اردو

میرے استاد اور میرے حضرت ابا جانؒ

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

شمس الحق نوازش
25اکتوبر کا دن۔۔۔۔جامعہ اشرفیہ لاہور کے فاضل عالم دین۔۔۔۔۔۔شیخ الحدیث مولانا غلام اللہ خانؒ اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ؒ کے ہر دلعزیز شاگرد۔۔۔۔جے یو آئی(س)کے سربراہ مولانا سمیع الحق اور پارلیمنٹ ہاؤس کے امام قاری بزرگ شاہ کے استاد۔۔۔۔ایکس خطیب پاک آرمی۔۔۔۔۔۔۔ہائی سکول گلاغمولی اور مدرسہ ضیاء العلوم کے مایہ ناز استاد۔۔۔اور اپنے وقت کے درویش صفت بزرگ۔۔۔۔کی برسی کا دن ہے۔یہ وہی ہستی تھے جنہوں نے تقریباََ33سال تک مختلف دینی اور دنیاوی درسگاہوں کے مسند علم و دانش پر جلوہ افروز رہنے اور اپنے نظیر قول استدلال، شاندار بلاغت و بیان اور لاجواب شگفتہ گفتاری کے ساتھ ساتھ طلبہ کو دینی اور دنیاوی بصیرت اور علمی پختگی سے سرفراز کرنے کے بعد 25اکتوبر2003؁ء کو اس دارفانی سے چل بسے۔۔۔غالباََ اسی سانحہ کے لئے کسی شاعر نے فرمایا ہے۔
نظر آئے گی یارب پھر بھی وہ صورت کبھی ہم کو
سنیں گے پھر بھی وہ آواز لبہائے خنداں سے
بنے تھے یوں تو ہم روز اول سے غم اٹھانے کے لئے
نہ تھی پر یہ خبر، ہوں گے الگ بھی تیرے داماں سے
حضرت اقدس مولانا حمایت الحق نے دنیا کے بلند ترین مقام گلاغتوری میں آنکھ کھولی، اس وقت علاقہ ہذا زندگی کی تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم تھا۔نہ کہیں مکتب کا وجود نہ مدرسہ اور سکول موجود، ان حالات میں اگر کوئی حصول علم کی طرف دھیان دیتا تو اس قسم کے انسان کو پاگل اور احمق گردانا جاتا لیکن ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو۔۔۔۔پر عمل پیرا نوجوان اپنی عمر کی17بہاریں گزارنے کے بعد توکل علی اللہ کے سیدھے سادے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے پیدل مغرب کی جانب رخت سفر باندھے۔اس گمنام منزل کے راہی نے اپنے ارادے سے کسی کو آگاہ بھی نہیں کیا۔البتہ عزیز و اقرباء کو صرف یہ اطلاع ملی کہ موصوف براستہ چترال پشاور روانہ ہوئے۔وہ دن، وہ ساعات، وہ لمحات تھے۔مغرب کی طرف چلے گویا کہ جانب غرباََ غروب ہی ہو گئے۔باپ بھائی سرزمین پاکستان کی خاک چھانتے رہے، لیکن حضرتؒ کا وجود ہی مشکوک رہا۔
کسی کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ یہ حرف ابجد سے نابلد نوجوان ایک نہ ایک دن شائق حدیث علم و ادب سے آراستہ اور تاریخ کا زرّیں باب بن کر طلوع ہوگا۔ہر وہ شخص جو سینے میں دل رکھتا ہے یہ سن کر ششدر رہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ 17سال کی عمر کا یہ ان پڑھ نوجوان براستہ چترال روانہ ہوکر 20سال تک اپنوں کی نظروں سے اجھل رہ کر اپنے وجود کو اپنوں کے لئے دنیا سے نہ صرف مشکوک بلکہ یقینی بنا کر20سال بعد اچانک براستہ گلگت ایک فقید المثال، مدبر و مفکر اور جید عالم دین بن کر اپنے پسماندہ گاؤں میں واپس پہنچے۔اس اجنبی عالم دین کو دیکھ کر ہر کسی کا حیرت زدہ ہونا ایک یقینی امر تھا اور اس وقت یہاں کے باسی بزبان حال کہہ رہے تھے۔
کہاں ہم کہاں یہ نکہت گل
نسیم صبح تیری مہربانی
علاقہ ہذا دور آفتادہ اور پسماندہ ہونے کی وجہ سے جاہلیت کا مرکز تھا۔جبکہ بدعات کی تخم ریزی تو آپ کی پیدائش سے بھی کئی سال قبل کی گئی تھیں۔اب آپ کی آمد کے ساتھ ان بدعات و خرافات کی کھیتیاں لہلہا رہی تھیں کہیں ”زیارت“ کے نام سے قبروں سے مرادیں پوری کرنے کا انہونا سلسلہ جاری تھا تو کہیں مردے کے اوپر چادریں چڑھا کر۔بالآخر ان چادروں کی تقسیم کو جہلانے کا دین کا جز قرار دیا تھا۔یہ بطل حریت اور قاطع شرک و بدعت نے اپنی اولین فرصت میں توحید کے تیز دھارے سے ان بدعات و خرافات کی لہلہاتی کھیتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا بقول کیفی
ہم ایک خدا کے قائل ہیں پندار کا ہر بت توڑیں گے
ہم حق کا نشان ہیں دنیا میں باطل کو مٹا کر دم لیں گے
اس مشکل کام کے لئے اس کھرے عاشق رسولؐ کو بے شمار مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ان مشکلات و مصائب کے پتنگ کی ڈوری باپردہ لوگ پردے کے پیچھے بیٹھ کر ہلایا کرتے تھے جب آپ کے سامنے ان کا تذکرہ ہوتا تو برجستہ فرمادیتے۔
یہ فتنہ و شر کے پروردہ تخریب کے سامان لاکھ کریں
ہم بزم سجانے آئے ہیں ہم بزم سجا کر دم لیں گے
کسی کی کیا مجال تھی کہ آپ کے سامنے شرک و بدعت کو حق ثابت کرنے کے لئے بحث چھیڑے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ضرب کلیمی کی جس صفت سے نوازا تھا وہ اس روئے زمین میں شاید شازونادر کسی کو حاصل ہو بقول علامہ اقبالؒ
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سردارا
شجاعت کے معاملہ میں ان کی نظیر ملنا مشکل ہے خوف نام کی کوئی چیز ان کے وجود میں شامل ہی نہیں تھی صرف ایک اللہ سے ڈرتے تھے وہ ظفر علی خان اور علامہ اقبالؒ کے ان اشعار کی تفسیر تھے۔
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
حضرت مولانا صاحبؒ نے ابتدائی تعلیم دارالعلوم کراچی سے حاصل کی۔یہ زمانہ دارالعلوم کراچی کا بالکل ابتدائی تھا۔گو دارالعلوم کی تاسیس اندرون شہر نانک واڑہ کے محلے میں واقع ایک متروک جائیداد میں ہوتی تھی۔حضرت ؒ دلجمعی اور یکسوئی سے اس علمی گلستان سے مستفید ہوتے رہے۔بعد ازاں کراچی سے ہجرت کرکے جامعہ اشرفیہ لاہور سے منسلک ہوگئے۔اس جامعہ میں درس نظامی اور مروجہ فنون کی تکمیل کے بعد اسی جامعہ سے سند فراغت حاصل کی تھی۔حضرت اقدسؒ جامعہ اشرفیہ لاہور کے اس دور کے فضلا میں سے تھے جس دور میں جامعہ اشرفیہ لاہور کے دروبام حضرت مولانا رسول خانؒ اور حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ جیسی نابغہ روزگار شخصیات سے منور تھے ان کے علاوہ شیخ الحدیث مولانا محمد فراز خانؒ صفدر اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ سے بھی آپ کو شرف تلمیذ رہا ہے۔حضرت مولانا حمایت الحق کو اللہ تعالیٰ نے ان اساطین علم اور آفتاب زمانہ سے بھرپور استفادہ کی سعادت سے نوازا تھا۔چنانچہ آپ کے شب و روز کی زندگی میں ان مقتدر اساتذہ کا عکس نظر آتا تھا مطالعے میں تحمق، تدریس میں تحقیق اور تفہیم میں بلاغت و روانی آپ کے نمایاں اوصاف و کمالات تھے اور آخری عمر میں بھی طرح طرح کے جسمانی عوارض اور پیرانہ سالی کے باؤجود دینی اور دنیاوی درسگاہوں میں پڑھائی کو ایک لمحے کے لئے بھی مؤخر نہ کیا بلکہ تدریس و خطابت کے دوران آپ کا انداز تخاطب جوانی کی طرح توانا اور برجستہ تھا اور سننے والے کو کسی کمی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔
25اکتوبر کو عین وقت بانگ سحر وہ علم و تفقہ، حکمت و تقویٰ، مجاہدہ اور اعتدال کی مجسم تصویر قیامت تک کے لئے سوگیا اور ہمیں اپنی جدائی کا غم دے گیا اس زاہد شب زندہ دار کا مسکراتا چہرہ جب بھی ذہن کی سکرین پر نمودار ہوتا ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے اور بے اختیار لبوں پر شاعر کا یہ شعر رقصاں ہوجاتا ہے۔
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے نہ رہنے دیا
جب بھی سرد ہوا چلی میں نے تجھے یاد کیا
ان کے جہان فانی سے اٹھ جانے کے بعد چمن کی رونقیں اور خوشیاں یکسر ختم ہوئیں اور پوری بزم جہاں کے اندر ایک سناٹا سا طاری ہوا، ایک راہنما جو نصف صدی سے بے راہ مسافروں کو گم شدہ منازل کا پتہ دیتا ہوا تاریخ کی شاہراہ پر گامزن تھا یکایک اجل نے گلستان سے نغمہ توحید کی پرسوز صورت کار بلبل کو وادی موت میں دھکیل دیا۔آپ کی یادیں جب بھی دل و دماغ میں بیدار ہوتی ہیں تو لبوں پر یہ شعر مچل جاتا ہے
وہ پھول چنا میرے گلستاں سے اجل نے
جس پھول کی خوشبو سے معطر ہے جہاں آج
حضرت مولانا صاحبؒ امت محمدیہؐ کے اس دور کے ان نابغہ روزگار شخصیات میں سے تھے جو صدیوں بعد امت کو نصیب ہوتی ہیں بقول شاعر مشرق
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اللہ جل شانہ کا راقم الحرف پر بہت بڑا فضل اور احسان ہے اور اس پر راقم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں تو بھی کم ہے کہ نفوس قدسیہ کے مالک میرے محسن بیک وقت میرے استاد اور میرے حضرت ابا جانؒ زندگی کے کسی موڑ میں بھی مجھ سے ناراض نہیں کئے گئے یہ میں اس لئے نقل کررہا ہوں کہ الحمد للہ شاگرد و فرزند کی حیثیت سے یہ میرے لئے اور میرے جیسوں کے لئے ایک بہت بڑا سرمایہ ہے آخر میں ان اشعار سے اجازت۔۔۔۔۔۔
آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے
خوابیدہ زندگی تھی جگا کے چلے گئے
سمجھا کے پستیاں میرے اوج کمال کی
اپنی بلندیاں وہ دکھا کر چلے گئے
شکر کرم کے ساتھ یہ شکوہ بھی ہو قبول
اپنا سا کیوں نہ مجھ کو بنا کر چلے گئے

مزید دریافت کریں۔