ہنزہ نیوز اردو

مولانا کیا کریں گے؟

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

فرض کیجے مولانا فضل الرحمان کو حکومت ملتی ہے. وزرات عظمی کا تاج ان کے سر سجتا ہے..اداروں کا سپورٹ بھی ملتا ہے. ن لیگ اور پی پی پی بھی فرینڈلی اپوزیشن یا اتحادی بن جاتے ہیں. تو مولانا کیا کریں گے؟
سوال یہ ہے کہ کیا مولانا کے پاس معیشت، تجارت، صحافت، انڈسٹری، بین الاقوامی تعلقات، واضح خارجہ پالیسی، سڑا ہوا تعلیمی سسٹم کی اصلاح،امن عامہ اور پولیسنگ، بیروزگاری کا جن اور مہنگائی کی عفریت کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی واضح روڈ میپ یا پلان موجود ہے؟
کیا ان کے پاس مسائل اور ان کے حل کی ترجیحی فہرست موجود ہے اور یہ بھی کہ ان رستے ہوئے ناسور جیسے مسائل کو کونسی ٹیم کے ساتھ کیسے ایڈرس کریں گے؟
سماجی، سیاسی اور انٹرنیشنل معاملات کو ڈیل کرنے کی کوئی ڈپلومیٹک سٹریٹجی بنائی گئی ہے؟ کیا ایسے افراد موجود ہیں جو ان پیچیدہ معاملات کو سنجیدگی کیساتھ کنڈکٹ کرسکیں یا ایسے افراد سازی کا ادارہ موجود ہے کہ اس میں افراد تیار کیے جاسکیں؟
یا پھر حکومت ملتے ہی مولانا صاحب فوری طور پر زبانی کلامی اسلام نافذ کریں گے؟
یہ بھی ذہن میں رہے کہ ایک دو معمولی باتوں کے سوا 73 کا آئین مکمل اسلامی ہے. قرار مقاصد آئین کا لازمی حصہ ہے. ایسے میں زبانی کلامی  نفاذ اسلام اور تحفظ ختم نبوت کا چورن دیر تک نہ چل سکے گا..
بہتر یہی ہے کہ نیچلی سطح پر ان تمام امور کے لیے تربیت کی ضرورت ہے. تربیت گاہیں بنانی چاہیے. بصورت دیگر متحدہ مجلس عمل کی کے پی کے والی حکومت کا تجربہ سامنے کی بات ہے. حسبہ بل نے دودھ اور شہد کی کونسی نہریں بہا دی تھی؟
عام آدمی کا یہ کنسرن بھی نہیں کہ کونسا نظام حکومت چل رہا ہے نہ ہی ملک گیر عوام کی ضرورت کہ ریاست میں کونسا طرز حکومت ہے.انہیں ملک کی ترقی اور خوشحالی مطلوب ہے

مزید دریافت کریں۔