شرافت حسین استوری
قومی شناخت کسی بھی ملک اور علاقے کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور زندہ قومیں اپنی قومی شناخت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ گلگت بلتستان یکم نومبر 1947 کو دنیا کے نقشے میں معرض وجود میں آیا لیکن آزادی سولہ دنوں تک رہی۔یکم نومبر کو 1947 کو معرض وجود میں آنا والا یہ خطہ ریاست جموں کشمیر کا آئینی حصہ رہا ہے۔ 1934 سے 1941 تک ہونے والی ریاستی الیکشن میں گلگت بلتستان کے پانچ (5) نمائندے اس علاقے کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ اسی دوران کرنل حسن خان جس نے گلگت بلتستان کا آزاد مستقبل کا خواب دیکھا تھا دھرتی ماں کے دوسرے باسیوں کے ساتھ مل یکم نومبر کو گلگت کو آزاد کر لیا اور یہ نامکمل آزادی سولہ دن سے زیادہ نہ چل سکی اور جلد ہی اس علاقے نے غلامی کا لبادہ اوڈھ لیا۔ اور دیکھتے دیکھتے گلگت بلتستان میں صوبہ سرحد پاکستان سے آنے والا پولیٹکل ایجنٹ نے گلگت بلتستان کو کالے قانون ایف سی آر کے شکنجے میں کس لیا اور کچھ عرصے بعد بلتستان لداخ سے کٹ کر گلگت ایجنسی میں شامل ہوگیا.18 اپریل 1949 کا بدنام زمانہ معاہدہ کراچی جس میں گلگت بلتستان کے لوگوں کو اعتماد میں لیے بغیر آزاد کشمیر اور پاکستان کے کچھ نمائندوں نے گلگت بلتستان کو مسلہ کشمیر کا حصہ بنا دیا اور یونہی آزادی کی تحریک کو ناکام بغاوت میں بدل دیا۔ اور اس معاہدہ کی کامیابی کے بعد مسلہ کشمیر میں اپنے موقعف کو مضبوط کرنے کے لیے ریاست پاکستان نے گلگت بلتستان اور کشمیر کو ملا کر ایک ایڈمنسٹریٹیو اکائی بنائی گئی جسے ناردرن ایریاز اینڈ کشمیر افیرز کے اے ان اےکا نام دیا گیا.گلگت بلتستان کا سب سے بڑا مسلہ اس وقت قومی تشخص ہے کیونکہ گلگت بلتستان نہ تو پاکستان کا حصہ ہے نہ انڈیا کا لیکن دونوں ممالک نے مل کر مسلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کو بھی قربانی کا بکرا بنایا ہوا ہے۔ کیونکہ کسی بھی ملک یہ علاقے کو اس کا قومی تشخص بہت بڑی معنی رکھتا ہے۔ گلگت بلتستان کے باسیوں کا ہمیشہ سے مسلہ یہ رہا ہے کہ وہ حقائق کے بجائے خواہشات کو بنیاد بنا کر فیصلہ کرتے ہیں جسکا وہ نقصان آج ستر سالوں سے اٹھا رہے ہیں اگر خواہشات پوری ہوتی تو میں ضلع استور کو ریاست بنا کر اسکا راجہ بنتا۔ گلگت بلتستان والوں کو چاہیے کہ وہ وہ اپنی خواہشات کو سائڈ پر رکھ کر حقائق کو بنیاد بناکر فیصلہ کرنا ہوگا نہیں تو ہم ستر سال مزید اسی طرح سڑتے رہینگے۔ ماضی میں گلگت بلتستان میں کوئی ایسی منظم سیاسی تحریک نہیں چلی جو کہ خطے کے حقائق کو مدنظر رکھ کر چلی ہو لیکن کچھ مواقع ایسے آئے تھے جہاں پر اگر ویژنری قیادت ہوتی تو ان مواقعوں کو تاریخ میں بدل سکتے تھے۔1974 میں عوام ایک اہم موڈ پر تھی لیکن پاکستان کی مکار قیادت نے خطے سے اف سی ار اور راجگیری سسٹم کو ختم کرکے عوامی حقوق کو اٹھنے والی تحریک کی سمت کو تبدیل کر دیا۔ 2013 میں گندم سبسڈی ختم کرنے کے فیصلے کے بعد عوام میں ایک جزبہ اور ولولہ تھا اور عوام ایک پلیٹ فارم پر جمع تھی لیکن مسلہ معاشی ہونے کی وجہ سے سیاسی قیادت اسکو حقوق اور قومی تشخص سے جوڈ نہ سکی اور یونہی ایک اہم موقع ضائع ہو گیا۔اس طرح 2017 جب وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان میں ٹیکس لگانے کی کوشش کی تو ایک بار پھر سخت عوامی ردعمل سامنے آیا اور پورے گلگت بلتستان میں ہل چل مچ گئی اور اور گلگت بلتستان کے ہر اضلاع سے گلگت سٹی کی طرف لانگ مارچ شروع کیا تھا اور وفاق کو ایک بار پھر اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا اس بار ہمارا مسلہ آئینی حقوق سے مشروط تھا لیکن ایک پھر تحریک کو چلانے والے ایک بار پھر آئینی حقوق سے جوڈ نہ سکے اور مسلہ وہی کا وہی رہا جو ستر سالوں سے جہاں کھڑا تھا.گلگت بلتستان کو سب سے زیادہ نقصان مفاد پرستوں کے علاوہ مذہب کے پجاریوں نے پنچایا، گلگت بلتستان میں بھی پاکستان کیطرح مذہب کا استعمال زیادہ ہوتا ہے اور ہر آنے والے نے مذہب کے نام پر یہاں کے لوگوں کے ساتھ کھل کر کھیلا، میجر براون سے لے کر جنرل ضیالحق سب نے مزھب کا استعمال کیا 1988، 2008 اور 2013 کے سانحات تاریخ نہیں بھول سکتی جس طرح ایک منصوبے کے تحت گلگت بلتستان میں فرقہ ورانہ کشدیگی کو فروغ دے کر حقوق کے لیے اٹھنے والی آوزاوں کو مزہبی اور لسانی کشدیگی کا حصہ بنایا۔ تاریخ کے ان دلخراش واقعات نے گلگت بلتستان کے لوگوں کو ایک قوم بننے نہیں دیا اور ان واقعات نے گلگت بلتستان کے باسیوں کے درمیان وہ زہر گھول دیا جس کے داغ نما اثرات آج بھی موجود ہیں۔ سابقہ وفاقی حکومت مسلم لیگ نے گلگت بلتستان میں نئے انتظامی اصلاحات لانے کے لیے کافی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکی کیونکہ گلگت بلتستان کی عوام نے ستر سالون سے بہت سارے آرڈرز اور پیکجزز کو برداشت کیا ہے اور مزید آرڈرز برداشت کرنے کی حالت نہیں ہیں اور سابقہ حکومت نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی تھی نہ اس کمیٹی کا کوئی فیصلہ سامنے آیا نہ اس کیمٹی کی رپورٹ پبلک ہوسکی۔ نئے پاکستان سے گلگت بلتستان کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن کپتان کے کھلاڑی گلگت بلتستان کی آئینی حثیت سے نالاں نکلے۔ اور بغیر تحقیق کیئے گلگت بلتستان کے لوگوں کو بہت جھوٹے دلاسے دیے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے کیونکہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ حثیت کے حامل علاقہ ہے جس کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ پاکستان کی معتبر عدالت سپریم کورٹ بھی گلگت بلتستان کے محرومیاں اور محکومیاں ختم نہیں کر سکی اور گلگت بلتستان کو تنازعہ کشمیر کا حصہ قرار دے کر گلگت بلتستان کے مفاد پرستوں کی آنکھیں کھول دیے۔ لیکن سپریم کورٹ سے شکوہ یہ ہے کہ انکو متنازعہ حثییت تو نظر آئی لیکن وہاں کے پسے ہوئے غریب لوگوں کے متنازعہ حقوق نظر نہیں آئے۔ آخر میں رہاست پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں 13 اگست 1948کے قراردوں کو مدنظر رکھ کر متنازعہ خطے کے لوگوں کو انکے بنیادی حقوق دیے جائے کیونکہ محرومیاں کسی بھی انقلاب کی پہلی سیڑھی ہوتی ہیں جوں جوں محرومیاں اور محکومیاں بڑھتی جائنگیں اتنے ہی باباجان اور نواز خان ناجی پیدا ہونگے تو اتنے ہی مشکلات پیدا ہوجاینگے۔