ہنزہ نیوز اردو

قومی المیہ

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

اقوام عالم ترقی کے میدان میں آگے ہی آگے جا رہی ہیں اس کے برعکس ہماری قوم کی حالت اس بے کس و مجبور ہرنی کی سی ہو گئی ہے جو اپنے سامنے بچوں کو شکار ہوتا دیکھ کر بھی کچھ کر نہیں پاتی اپنی اولاد کو درندوں کے خونی جبڑوں میں تڑپتا دیکھ کر بھی مقابلہ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی، پاکستانی عوام بھی اسی حالت زار کا شکار ہے ملک کو لٹتے ہوئے دیکھ کر کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتی۔گزشتہ ساتھ دہائیوں سے ہم یہی کچھ دیکھتے آئے ہیں جس نے بڑے بڑے دعوے کر کے قوم کو الو بنایا وہی سب سے بڑا لیڈر بن گیا ،اپنی چکنی چپڑی باتوں کے جال میں جتنے زیادہ لوگوں کو پھانسنے میں کامیاب ہوا اس کا مستقبل اتنا ہی روشن بن گیا ۔یہاں استحصال کرنے والے دغا باز کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے سر عام لوٹنے والے کو رہبر مانا جاتا ہے اور اس کے آگے پیچھے چاپلوسوں کی پوری فوج سر گرم رہتی ہے ،تا کہ یہ رہبر  کروڑوں کی دولت جمع کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ چاٹنے کے لیے ان کے آگے بھی پھینک دیں گے جس سے ان کے دن بھی پھیر جائیں گے ۔ہمارے اس قوم نما ہجوم میں منافقت اور ریا کاری کا چلن عام ہو گیا ہے ۔بحیثیت مجموعی قوم کا لفظ ہم پہ صادق نہیں آتا کیونکہ قوم میں غیرت ،احساس اور دانشمندی ہوتی ہے ،ہم سوائے ہجوم کے اور کچھ نہیں ہیں ،اچھے برے کی تمیز سے محروم ہجوم ،جس سے قوت گویائی ،سماعت اور بصارت چھین لی گئی ہے۔ دوسری طرف اس بے ہنگم ہجوم میں کچھ ایسے افراد موجود ہیں جو سننے دیکھنے کے باوجود کر گزرنے کی جرات سے محروم ہیں ۔ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جسے گہری کھائی میں گرنی والی تیز رفتار ریل گاڑی میں بٹھا دیا گیا ہو،ان کا حوصلہ اتنا بھی نہیں کہ کوئی زنجیر ہلا کر ریل گاڑی کو روک سکے۔ یہ بزدلی قومی المیہ بن چکا ہے اس کے پیچھے ہر شخص کے ذاتی مفادات پوشیدہ ہیں جن کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ہر شخص اور ادارے کوبدنام کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے والے یہ افراد معاشرے کی رگوں میں دوڑنے والا زیریلا خون ہیں جس سے معاشرہ ااپاہچ ہو جاتا ہے۔ ذاتی غرض اور شخصی مفادات کے حصول کی خاطر ملک میں جو ناٹک رچائے گئے ان سے اجتماعی زندگی اور مفادات کوکتنی ٹھیس پہنچتی ہے اس سے کسی کو سروکار نہیں ،سماجی نا انصافی کی داستانیں نئے روپ سے سامنے آتی ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ معاشرہ معصومیت سے فریب کاری کی طرف ،شرافت سے کمینگی کی طرف اور عزت نفس سے بے غیرتی کی طرف سفر کر رہا ہے ۔غربت افلاس ،چور بازاری،جھوٹ،فریب ،استحصال، ناجائز حربوں کا استعمال،اقدار کی پامالی اور سماجی نا انصافیوں کا زہر پورے معاشرے میں  ایسے پھیل چکا ہے جس کا تریاق ممکن نظر نہیں آرہا۔ جس انسان کے ذمہ حفاظت کا فریضہ لگایا گیا اسی نے لوٹنے کی کسر بھی پوری کر دی اور پکڑا اس لیے نہیں جا سکا کہ اس کے پاس قوت ہے ،پیسے کی قوت اقتدار کی قوت یا پھر تعلقات کی قوت ،جس سے بڑے بڑے جرائم بھی آاسانی سے دھل جاتے ہیں اور پکڑے جانے کی نوبت بھی نہیں آتی۔ اس لئے ناجائز طریقہ سے پیسہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ عوام ہے جس کو کبھی پیر فقیر کے روپ میں لوٹا گیا اور کبھی رہبرورہنما کا لبادہ اوڑھ کر چونا لگایا گیا۔جائز اور حلال کی کمائی مہینے کے اختتام تک بھی نہیں پہنچتی دولت کہاں سے جمع ہو؟ اپنی بے لگام خواہشات کو پورا کرنے اور ناجائز خوابوں کی تعبیر کےلیے صرف کالا دھن ہی بہترین ذریعہ ہے جو انسانی حقوق کی پامالی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اس لیے عوام کو مسلنے اور کچلنے میں جو سب سے زیادہ ماہر ہو وہی بڑا رہنما اور لیڈر ہے۔ اس صورت حال میں ہماری اجتماعی نفسیات عجیب شکل اختیار کر گئی ہے کہ اگر کوئی بھی خدا کا بندہ اپنے فرض کی ادائیگی میں ایمان داری دکھاتا ہے ،منافقت اور بے ایمانی سے اپنے دامن کو داغدارہونے سے بچانے کی کوشش کرتا ہےتو اسے ایسا کرنے نہیں دیا جاتا اتنا مجبور کیا جاتا ہے کہ کسی طرح وہ اپنی ایمان داری کا سودا کرے اگر وہ خود کو بچانے میں کامیاب ہو جائے تب بھی ماننے کو کوئی تیار نہیں ہوتا کہ یہ شخص سچا ہے۔ کسی طالب علم کی دن رات کی محنت کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے  کہ اس نے سفارش اور رشوت سے نمبر لیے ہوں گے یا نوکری حاصل کی ہوگی۔ضروری نہیں کہ ہر شخص ہی بے ایمان اور دھوکہ باز ہو۔معاشرے میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو اپنی فرض شناسی انسانیت،اور راستبازی میں بے مثل ہیں ،یہی لوگ ہمارا سرمایہ ہیں جن کے صرف گُن ہی نہیں گانا بلکہ ان کی خوبیاں اپنانے کی ضرورت ہے تا کہ سب مل کر معاشرے کو بربادی سے بچا سکیں۔

 

 

27 1  2020۔

مزید دریافت کریں۔