ہنزہ نیوز اردو

قصور اپنا

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/07/image311.jpg” ]سخی اکبر(ر)ریڈیو پاکستان[/author]

دور حاضر میں آپ جہاں بھی ہوں، جس قسم کی بھی فحفل ہو، جس سے بھی بات ہورہی ہو ہر ایک کی زبان سے ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے کہ نوجوان نسل کتنی نافرمان ہے۔توبہ توبہ عجیب زمانہ آیا ہے۔نہ والدین کا احترام نہ چھوٹے بڑے کی تمیز، نئی نسل میں اخلاق ختم ہے۔درسگاہوں کی یہ حالت کہ استاد اور شاگرد میں فرق ختم اور استاد کا ادب و احترام ناپید ہے۔ہر خاص و عام کی زبان پر ایک ہی جملہ کہ نئی نسل تباہ و برباد ہورہی ہے۔اللہ بچائے کیا بنے گا اس قوم کا۔مجال ہے کہ کوئی کسی کی نصیحت پر کان دھرے الٹا جواب ملتا ہے، بابا تمھارا زمانہ گیا، زمانہ بدل گیا اب ڈیجیٹل دور ہے۔زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔پرانے زمانے کی قصے کہانیاں دفن ہوچکی ہیں۔اب ہمارا زمانہ ہے۔خاموش رہو بس چپ تو کرو دماغ خراب مت کرو۔
نوجوان نسل سے اس قسم کی باتیں سن کر بڑے بزرک حیران و پریشان ضرور ہوتے ہونگے۔لیکن ہم بڑے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو سہی کہ نوجوان نسل کا اس حد تک نافرمان ہونے میں اپنا کردار کس حد تک کارفرما ہے۔آئیں اب ذرا بڑوں کے کردار پر نظر ڈالیں کہ جوان نسل کا معاشرے سے اس حد تک باغی ہونے میں بڑوں کا کتنا حصہ ہے۔میری اپنی ناقص رائے اور تجزئے کے مطابق نوجوان نسل کو اس حد تک نافرمان بنانے میں سوفیصد ہم بڑوں کا عمل دخل ہے۔اگر ہم بڑے اپنے کرتوتوں کو ٹھیک کریں اپنے مرتبے اور مقام کو صحیح طور پر سمجھیں نیز والدین اور بڑے اولاد کے حقوق دین اسلام کے ہدایات کے مطابق ادا کرتے ہوئے اپنے قول و فعل اور معمولات زندگی کے ہر عمل کو دین اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق چلا کر نواجوان نسل کیلئے عملی نمونہ پیش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ جوان نسل فرمان بردار اور صالح نہ ہوں۔یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ہم بڑے خود غلط ہوں اور نواجوان نسل سے ٹھیک ہونے کی آس لگائیں۔یہ کیسے ہوسکتا ہے یہ تو ممکن نہیں۔
اگر ہم بڑے بزرگ اپنی جوان نسل کو دین دار، نیک، صالح، فرمان بردار اور قابل دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہم بڑے اپنی تمام تر کوتاہیوں کو دور کرکے اس حد تک اپنی اصلاح کریں تاکہ ہم مثالی نمونہ بنیں اور نواجوان ہمیں دیکھ کر ہمارے نقش قدم پر چلتے ہوئے، اپنی اصلاح کرکے سدھر سکیں۔اس سلسلے میں بڑوں کو اپنی درج ذیل خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔
اول یہ کہ ہم بڑوں کو نئی نسل پر نافرمان ہونے کا الزام لگا کر، انکا تباہ و برباد ہونے کا رونا رونے سے قبل اپنے بارے سوچیں کہ ہم اپنے والدین اور بزرگوں کے کتنے فرمان بردار رہے ہیں۔سوچیں اگر ہم اپنے والدین اور بزرگوں کے فرنبردار اور تابعدار رہے ہیں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہماری اولاد نافرمان ہو۔اگر ہم نے زندگی والدین اور بزرگوں کی نافرمانی میں گزاری ہے تو ہماری اولاد بھی ضرور نافرمان ہوگی۔مثل مشہور ہے”کردد خویش آید بیش” اسی طرح شینا زبان میں کہاوت مشہور ہے “دادی گون پوچیٹ گہ”محترم قارئین! ہم بڑے خود غلط کرتے ہیں اور بچوں کو ایسا عمل کرنے سے منع کرتے ہیں مثلاََ خود نسوار کھاتے ہیں اور سگریٹ پیتے ہیں مگر ساتھ ہی بچوں سے کہتے ہین کہ بچے نسوار مت کھاؤ اور سگریٹ مت پیو۔بلا اس کے اثر بچے پر کیسا ہوگا۔پھر ہم واویلا کرتے ہیں کہ نئی نسل بات نہیں مانتی، نصیحت پر عمل نہیں کرتی، نافرمان ہے۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ غلطی ہم بڑوں کی ہے نئی پودے کی نہیں۔
دوسری طرف ہم بڑوں کی ھالت یہ ہے کہ ہم میں حلال اور حرام کی تمیز بالکل ختم ہے۔اس معاملے میں ہمارا معاشرہ اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ ہم بچوں کو حرام لقمہ کھلاتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ اولاد فرمان بردار ہو۔یہ بات کیسے ممکن ہے کہ ہم جَو بوئیں اور گندم کاٹنے کی آس لگائیں۔ہم اپنے گھر کے زیر کفالت افراد یعنی بیوی بچوں کے کھانے پینے اور پہننے یہاں تک کی خیرات اور صدقات کے علاوہ زندگی کے تمام معاملات میں حرام زیادہ اور حلال کم کی نسبت سے چلاتے ہیں اور اس امید میں ہوتے ہیں کہ گھر میں اتفاق ہو، مہر محبت ہو، بیوی بچے فرمان بردار ہوں اور گھر میں فساد نہ ہو۔ کیا یہ ممکن ہے؟ پھر الزام نئی نسل پر کہ نافرمان ہیں۔اس کی مثال تو ایسی ہوگئی۔
“کار بد تو خود کریں لعنت کریں شیطان پر”
اگر ہم چاہتے کہ ہماری نئی نسل فرمان بردار ہو۔با اخلاق ہو، صالح ہو باکردار ہو اور پڑھ لکھ کر اس قابل ہو کہ ملک و قوم کی مستقبل کو سنبھال کر اپنے آپ کو اس قابل بنا سکیں کہ اسلام دشمن و ملک دشمن قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں تو بڑوں کو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ہمارے اندر جتنی بھی خرابیاں دین و مذہب سے دوری، مادہ پرستی، حرام خوری ، رشوت خوری و دگر عوامل سے پیدا ہوئیں یا پیدا کردی گئی ہیں، سب کو مٹانا ہوگا۔ اگر ہم بڑوں نے ایسا نہ کیا اور الزام جوان نسل پر نافرمانی کا لگاتے رہے تو معاشرہ مزید تباہ و برباد ہوگا۔
آخر مین بندہ ناچیز عرض شمال کے باسیوں سے دست بستہ اپیل کروں گا کہ خدارا ہم بڑے اپنے اندر موجود خرابیوں کو دور کریں اور نوجوان نسل کیلئے نمونہ بنیں تاکہ نوجوان نسل ہمارے نقش قدم پر چل کر سدھر سکے۔اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو ہم کسی اور قوم کے غلامی میں چلے جائیں گے۔اللہ ملک و قوم کو ہر قسم کے شر فساد سے محفوظ رکھے اور ہم بڑوں کو اپنا قبلہ درست کرنے کی توفیق دے۔آمین

مزید دریافت کریں۔