ہنزہ نیوز اردو

“قرض”

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

کرونا سے ہونے والی اموات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنا مجھ پر قرض ہے اور میں اس تحریر کے ذریعے اس قرض کو اتارنے کی کوشش کررہاہوں۔
متعدد بیماریوں میں مبتلا ایک قریبی رشتہ دار خاتوں جس کی وجہ موت ہسپتال سے جاری ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے مطابق دل کا دورہ ہے لیکن وفات سے ایک دن پہلے سیمپل لیکر خاتون کی فوتگی کے دوسرے روز کووڈ پازیٹیو کارپورٹ جاری کیا گیا۔جبکہ ایک اور رشتہ دار خاتون آئسولیشن وارڈ میں خوراک کی عدم فراہمی اور ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر نہ ملنے سے وفات پا گئی۔
پہلے واقعے میں ہنزہ علی آباد سے تعلق رکھنے والی خاتون نصرت زوجہ محمد ایوب جو کافی پہلے سے دل کے عارضے اور شوگر کے مرض میں مبتلا تھیں کو جولائی کے پہلے ہفتے میں دل کا دورہ پڑا مریضہ کو آغاخان ہیلتھ سنٹر علی آباد میں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد پی ایچ کیو ہسپتال گلگت منتقل کیا گیااور آئی سی یو میں علاج معالجہ شروع ہوا۔مریضہ کی حالت کبھی سنبھلتی گئی اور کبھی بگڑتی گئی بہر حال چار دن زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد نصرت زوجہ محمد ایوب داعی اجل کو لبیک کہہ گئی۔ اور ڈاکٹرز نے دل کے دورے کو وجہ موت قرار دیکر ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کی اور جسد خاکی کو ورثاءکے حوالے کیا۔ واقعے سے دو دن قبل مریضہ کو کرونا کا مشتبہ قرار دیکر کرونا ٹیسٹ کے لئے سیمپل لیا گیاتھا۔ایس او پی کے تحت جب کسی مریض کومشتبہ قرار دیکر سیمپل لیا جاتا ہے تو قرنطین کیا جاتا ہے لیکن اس مریض کے ساتھ ایسا کیا گیااور نہ ہی لواحقین کو دیگر ایس او پیز پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی یوں مریضہ کا کاانتقال ہوا اس وقت بھی لواحقین کو کسی قسم کے احتیاطی تدابیر اور ایس او پیز پر عملدرآمد کی ہدایات نہیں دی گئیں اور مرحومہ کی عام حالات میں تجہیز و تکفین کی گئی جبکہ انتقال کے دوسر ے روز کووڈ رپورٹ پازیٹیو آگیا۔پھر تیسرے روز کرونا سے ہونے والی اموات کی فہرست اور اعداد و شمار میں مرحومہ کا نام بھی آگیا۔اب لواحقین اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ مرحومہ کی وجہ موت دل کا دورہ ہے یا کرونا۔۔۔۔ ؟ اگر وجہ موت کرونا ہے تو ایس او پیز کے تحت تجہیز و تکفین کیوں نہیں کی گئی اور لواحقین کو بھی بھی ایس او پیز پر عملدرآمد کی ہدایت کیوں نہیں کی گئی اور اگر موت کی وجہ دل کا دورہ ہے تو مرحومہ کا نام کرونا کی فہرست اور اعداد و شمار میں کیوں ڈالا گیا۔یہ سوال مجھ پر قرض تھا سو میں محکمہ صحت کے ذمہ دار حکام حکام سے اس سوال کا جواب طلب کرنے کی جسارت کررہاہوں۔
کرونا سے موت کا دوسرا واقعہ کلیجہ پھاڑنے والاہے جوٹیال سے تعلق رکھنے والی 84 سالہ لیلیٰ زوجہ خوش بیگ موت سے ایک ہفتہ پہلے تک اتنی صحت مند تھی کہ گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹاتی تھیں نزلہ نزلہ زکام بخار کی شکایت ہونے پر ہسپتال لیجایا گیا ابتدائی چیک اپ کے بعدمشتبہ قرار دیکرقرانطین کرنے کی ہدایت کی گئی رپورٹ پازیٹیو آنے کے بعد گلگت میڈیکل سنٹر نومل روڑ کے آئسو لیشن وارڈ میںمنتقل کیا گیا اور کسی کو ملنے کی اجازت اجازت نہیں دی گئی تیسرے روز جب صحت ک خرابی کی خبر آئی تو ایک بیٹی زبردستی آئسو لیشن روم میں داخل ہوئی۔آئسو لیشن روم کی صورتحال کی منظر کشی شائد نہ کر سکوں لیکن ایک بیٹی کے لئے بھوک سے نڈھال نیم مردہ ماں اور ماں کے لئے بھجوایا گیا کھانا اور پھل فروٹ کا کاایسے ہی پیکنگ میںملنا جیسا بھجوایا تھا۔۔۔۔۔۔قیامت کے منظر سے کم تو نہیں ہوگا۔ یہاں ماں اور بیٹی کا مکالمہ بھی پتھر دل انسانوں کوجھنجوڑنے کےلئے کافی ہے بیٹی ماں سے لپٹ جاتی ہے اور بیمار ماں جسے بھوک اور پیاس نے نڈھال کیا ہوا ہے پوچھتی ہے ”ماں جی کچھ کھایا ہے کہ نہیں ؟ ماں بیٹی کی آواز آوازسن کر آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتی ہے اور خشک ہونٹوں اور بھوک سے نڈھال ماں یہ بتانے میں کامیاب ہوتی ہی کہ نہیں بیٹا کچھ نہیں کھایا بہت بہت بھوک لگی ہے پھرماں جی سوال کرتی ہے کہ آپ سب کہاں ہیں مجھے اکیلا چھوڑ کے ؟ بیٹی کے پاس ماں کے کےاس سوال کو جواب ہی نہیں۔۔۔۔۔ یوںتو ہسپتال میں ماں جی کے سارے بیٹے بیٹیاں اور دیگرقریبی رشتہ دارتو آتے رہے ہیں لیکن کرونا کے ایس او پیز کی وجہ سے وہ مل نہیں پائے۔ چند نوالے لینے کے بعد ماں بیٹی کو ڈھیر ڈھیرساری دعائیں دیتی ہے اورایک بیٹے رحمت اللہ بیگ کا نام لیکر پوچھتی ہے وہ کہاں ہے۔ رات دو بجے بیٹا بھی آتا ہے ماں خوشی سے نہال ہوتی ہے ماں بیٹے سے ایسے لپٹ جاتی ہے جیسے بچپن میںاپنے سینے سے لگا کے مائیں اپنے پیار کا اظہار کرتی ہیں شاید ماں کی ملاقات کی آخری خواہش تھی پوری ہوگئی اور ملاقات اور موت کے درمیان کا فاصلہ صرف چند گھنٹوں کاتھا ماں جی کی حالت بگڑ گئی وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی۔ گلگت کے ہسپتالوں کا خاک چھاننے کے باوجود وینٹی لیٹر نہیں مل سکا اور صبح ساڑھے چار یا پانچ بجے ماں جی دار فانی سے کوچ کر گئی۔
بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ موت اٹل ہے اور اس کو کوئی نہیں ٹال سکتا اور مقدر میں جس دن جس طرح موت لکھی گئی ہے اسی طرح ہی موت نے گھیر لینا ہے لیکن پھر بھی انسان اس آس میں رہتا ہے کہ شائد وینٹی لیٹر ملتا تو صحت بہتر ہوتی۔۔۔۔گاڑی آہستہ چلاتا تو حادثہ نہیں ہوتا گولی ٹانگ میں لگتی تو جان بچ جاتی اس ہسپتال میں فلاں ڈاکٹر سے علاج بہتر رہتا وغیرہ. پورے ایمان کے ساتھ موت کی حقیقت کو تسلیم کرنے کےساتھ ساتھ اس امر پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہسپتالوں میں صحت کی بنیادی سہولیات دستیاب ہوں اور کرونا جیسے وبائی صورتحال میں بھی صحت کے سہولیات کی فراہمی کے نام پر جھوٹ نہ بولا جائے فنڈز کے استعمال میں بد عنوانی نہ ہو ، ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اسلامی معاشرے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن بد قسمتی سے غیرمسلم معاشروں میں کتوں کی جس طرح دیکھ بال ہوتی ہے وہ یہاں انسانوں کا نہیں ہوتا۔سو ہمیں اپنے رویوں اور کرتوت کا از سو نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور کرونا کے اس وبائی صورتحال میں کم از کم صحت کے سہولیات کی فراہمی کے نام پر بد عنوانی سے دور رہنا چاہئے۔

مزید دریافت کریں۔