ہنزہ نیوز اردو

عبوری صوبہ اور بس پردہ مقاصد

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

گزشتہ ماہ فوج کی زیر نگرانی آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی جس میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ تمام پاکستانی پارٹیوں کے نمائندوں نے فوج کی اس تجویز سے اتفاق کیا۔

اس کے فوراً بعد نصف درجن دھاڑی دار کالے کلوٹے پنجابی مزدور ہاتھوں میں پلے کارڈز تھامے اسلام آباد میں نمودار ہوئے اور حیرت انگیز طور پر “گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بناو” کا نعرہ لگانا شروع کردیا۔ یاد رہے کہ پنجاب کے مزدور نے نہ کبھی گلگت دیکھا ہوتا ہے نہ عبوری کے معنی جانتا ہے

حالیہ دنوں گلگت، ہنزہ اور گاہکوچ میں چھوٹی چھوٹی جھنڈا بردار ریلیاں دیکھنے کو ملیں۔ ریلیوں کے شرکاء نے زندہ باد پائندہ باد والے معمول کے نعروں کے علاوہ گلگت بلتستان کو پانچواں عبوری صوبہ بناو کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔

گلگت بلتستان کا ہر پڑھا لکھا باشعور شخص جانتا ہے کہ گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانے کا اختیار پاکستان کے پاس نہیں ہے۔ پاکستان نے جس دستاویز پر دستخط کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کشمیر و گلگت بلتستان سے اپنی فوج و سویلینز نکالے گا جس کے بعد UN کی زیر نگرانی رائے شماری ہوگی یعنی ہر بالغ مرد و عورت سے رائے لی جائے گی کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں، جس کے بعد اکثریتی رائے پر عملدرآمد ہوگا۔

پاکستان 16 نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کے باسیوں سے بِنا پوچھے اپنے زور بازو سے پہلے گلگت پھر بلتستان پر قابض ہوا. اس دن سے لے کر آج تک جی۔بی کے حوالے سے ہر فیصلہ ہم سے پوچھے بغیر ہمارے اوپر مسلط کیا جاتا رہا۔

ریاست پاکستان “رائے شماری” سے پہلے گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بنا سکتی۔ اگر پاکستان واقعی صوبہ بنانے کی سنجیدہ کوششیں شروع کریں گا تو انڈیا اس کے خلاف سکیورٹی کونسل میں جائے گا اور ڈیڑھ کروڑ کشمیری پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاج کریں گے جسے پاکستان سہہ نہ پائے گا اور پہلے دن ہی یو ٹرن لینے پر مجبور ہوگا، اس لیے پانچواں صوبہ کسی کا خواب تو ہوسکتا ہے زمینی حقیقت ہر گز نہیں۔

گلگت بلتستان میں الیکشن کی گرما گرمی میں عمران خان کی طرف سے صوبے کا اعلان الیکشن سٹنٹ ہے جو صرف ووٹ کے حصول کے لیے ہے تاکہ اپنی حکومت قائم کر پائے۔

عبوری صوبہ پانچواں نہیں بلکہ الگ سے ایک نرالا صوبہ ہوگا جہاں سے تین تین افراد قومی اسمبلی و سینٹ میں بٹھائے جائیں گے نہ ان کا ووٹ ہوگا نہ قراردادیں پاس کرا سکیں گے۔ بقول وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی “جی۔بی والوں کو صرف احساس شمولیت دلایا جائے گا اور بس”۔

دوسری طرف یہی عبوری صوبہ اگر بنا تو ہم جی۔بی والوں کے لیے بربادی کا سامان لے کر آئے گا۔ سبسڈی کا خاتمہ ہو گا، ہر چیز پر ٹِکس لگے گا، معدنیات اور زمینوں پر پاکستانی شہری قابض ہوں گے جنہیں ریاست پاکستان قانونی تحفظ دے گی۔

عبوری صوبہ سی پیک کے لیے لائسنس کی حیثیت رکھتا ہے۔ ریاست پاکستان نے CPEC کے تحت اپنے لیے لا تعداد منصوبے، اکنامک زونز رکھے ہوئے ہیں، ہم گلگت بلتستان والوں کو احسن اقبال ٹریفک کے دھویں پر گزارا کرنے اور خاموش رہنے کا حکم دے چکا ہے۔

آن پڑھ پنجابی مزدوروں کو اُجرت دے کر اسلام آباد میں عبوری صوبہ کا نعرہ کس نے لگوایا؟
گلمت ہنزہ، گلگت اور گاہکوچ میں ننھی منی عبوری ریلیاں کس نے نکلوائی؟
تینوں مقامات پر شُرکاء ریلی نے ایک خاص سائز کے جھنڈے
اور ایک ہی قسم کا بینر تھام رکھا تھا، یہ کون بنا کر دیتا ہے؟
ڈوریاں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں اسے سمجھنا بےحد ضروری ہے۔
ہمیں عبوری صوبہ نہیں آئین ساز، بااختیار اسمبلی چاہیے۔

پنجابی مزدور عبوری صوبہ کے لیے فکرمند!!!
تصویر ملاحظہ فرمائیں

مزید دریافت کریں۔