ہنزہ نیوز اردو

صفِّ اوّل کے سپاہی اور ہم

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

ایک طرف کرونا وائرس کا زور اور دوسری طرف عوام کی طرف سے کی جانے والی بے احتیاطی پر ملک بھر سمیت گلگت بلتستان کے مسیحا سخت مایوسی کا شکار ہیں کم وسائل کے باوجود گلگت بلتستان حکومت کی خصوصی دلچسپی اور میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے بہادر سپاہیوں کی محنت کی بدولت جی بی ملک بھر میں کرونا کو جلدی شکست دینے والا پہلا صوبہ بن گیا تھا بدقسمتی سے ہمارے لوگوں نے نہ احتیاط کی اور نہ ہی علاج کے لئے گئے اورجو ایک آدھ  لوگ جن کو کرونا کے اثرات تھے وہ لوگ گھروں میں چھپ کر دیگر افراد کو بھی اس موذی بیماری کا شکار بنوایا اب جاہلیت پن کا یہ عالم ہیکہ ہم لوگ یاتو ہسپتالوں کو توڑتے ہیں یا تو ان بے بس مسیحاوئوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جو تین مہینے ہونے کو ہیں نہ تو نیند پوری کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے خاندان کے ساتھ معمول کی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں بلکہ قوم کی خاطر صفِّ اوّل میں کرونا کے خلاف لڑتے ہوئے ڈاکٹر اسامہ ریاض جیسے جوان شہزادے شہادت نوش فرماتے ہیں اور نرسنگ کے شعبے سے منسلک کرونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے گھر کے اکلوتے سہارے ملِک اشدر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور اب بھی جی بی میں تیں درجن سے زائد میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے سپاہی قرنطینہ کی زندگی گزاررہیں ہیں۔
گزشتہ دنوں اوشکھنداس کا مریض ایک پرائیویٹ کلینک میں چیک اپ کروانے کے بعد ہسپتال میں ایڈمٹ ہونےکی غرض سے سٹی ہسپتال کشروٹ میں گیا تھا اور شائد وہ بیچارہ ہسپتال سے ناواقف ہوگا ۔(اگر کسی کو کوئ ایمرجنسی ہو تو وہ ہسپتال ہی  لےجائے ناکہ کلینک میں.  .   ہسپتال میں ایمرجنسی کے لئے آن کال تمام اسپیشلِّسٹ تیار رہتے ہیں اور اگر آپ پرائیویٹ کلینک سے چیک ہوکے آتے ہیں تو  ہسپتال کا یہ قانون ہوتا ہیکہ جب کوئ مریض ہسپتال میں ایڈمشن کے لئے آتا ہے تو اس کو پہلے ایمرجنسی ڈاکٹر سے چیک کروانا ہوتاہے اور ایم او ڈاکٹر ایڈمشن کی پرچی بناتا ہے اور ساتھ بیٹھا ایمرجسنی میڈیکل ٹیکنیشن مریض کا علاج کرتا ہے اور مریض کو ڈاکٹر کا ہدایت کردہ وارڈ دکھاتا ہے )اور ویڈیو میں صاف دکھائ دیتا ہیکہ وہ مریض کو پہلے وارڈ لیجاتا ہے اور بعد میں ایمرجنسی میں آتا ہے اور وہ ایمرجنسی میڈیکل ٹیکنیشن کی ہدایات پر عمل نہیں کرتا وہ اسٹاف بار بار وارڈ لیجانے کا کہ رہا ہے اور وہ اپنے مریض سے زیادہ اپنے موبائل کی ویڈیو پر توجہ دیتا ہے اگر اتنی توجہ وہ مریض پر دیتا اور ڈاکٹر کو اپنا کام کرنے دیتا تو شائد اس کے حق میں بہتر ہوتا باقی موت جہاں لکھی ہے وہاں آنی ہے لیکن انسان کو اپنی پوری کوشش کرنی ہوتی ہے ۔ہسپتال میں جو کوئ بھی مرتا ہے تو اس پر سب کو افسوس ہوتا ہے اور ہسپتال کا عملہ لواحقین کے دکھ درد کو سمجھتا ہے ۔لیکن حیرانگی اس بات پر ہوتی ہیکہ کچھ پڑھے لکھے لوگ سب کچھ سمجھنے کے باوجود قوم کے مسیحائوں پر محظ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے لئے  کیچڑ اچھالتے ہیں اور کیسس بھی بناتے ہیں۔
 ہمیں اپنے قوم کے مسیحائوں کا ڈاکٹر سے لیکر ہیلتھ ورکر تک کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے  جو ملک کے مشہور اور ہر قسم کی  سہولت سے آراستہ ہسپتالوں کو چھوڑ کے اپنی قوم کی خدمت کی خاطر گلگت بلتستان کے دور افتادہ علاقوں میں آکر خدمات سر انجام دے رہیں ہیں گلگت بلتستان حکومت کی کوششوں کی وجہ سے اب ہمارے پاس ڈاکٹر کلیم اللّٰہ جیسے اسپائن سرجن اور ڈاکٹر سدھیر عالم جیسے نیورو سرجن اپنی خدمات سرانجام دے رہیں ہیں ہمیں اللّٰہ تعالا کا شکر ادا کرنا چاہئیےاور موجودہ حکومت کی کوششوں کی بدولت اب ہمیں اپنےگھر کی دہلیز پر صحت کی ہر سہولت میسر ہے۔
 اب ہمارا فرض بنتا ہیکہ اپنے اثاثوں کی حفاظت کریں ۔
قوم کے مسیحائوں کی قدر کریں۔
 اور جو سیاستدان اچھا کام کرتا ہے اس کی حوصلہ افزائ کریں تو انشااللّٰہ ہمارے جو حکمران آئنگیں نیک آئنگیں۔

مزید دریافت کریں۔