ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ دنیا میں روزانہ موت سے ہمکنار ہوتے ہیں ۔ یہ دنیا فانی ہے اس کو ثبات کہاں اور اس کاءینات میں بسننے والے افراد کا تو بس ایک وقت مقرر کیا گیا ہے ۔اس وقت میں نہ کمی ہو سکتی ہے اور نہ بیشی یہی مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ہر ذی روح کو ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے ۔گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے تین بہادر سپوتوں نے اس موت کا مزہ ۲۳ نومبر دو ہزار سولہ کو چکھا۔ان کی موت کا جو مزہ تھا نہ صرف انہوں نے چکھا بلکہ گلگت بلتستان کے باسیوں نے بھی اپنے ان سپوتوں کی موت کا مزہ محسوس کیا۔اور ہر ایک کی زبان پہ ورد تھا کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ وطن کی مٹی اپنی حفاظت کے لءے قربانی مانگتی ہے اور قربانی بھی ایسی جو ہر ایک کی بس کی بات نہیں یہ قربانی صرف وہی لوگ ہی دیتے ہیں یا دے سکتے ہیں جن کو اپنی دھرتی سے پیار ہوتا ہے اور وہ ملک کی آزادی کو ترجیح د یتے ہوءے اپنی جان اور مال وطن پر نثار کرتے ہیں کچھ تو شہادت کے رتبہ میں فاءز ہوتے ہیں اور کچھ غازی بن جاتے ہیں ۔ ۲۳ نومبر ۲۰۱۶ کو کشمیر باڈر پر شہید ہونے والے یہ تین سپوت کون تھے جو پاک آرمی کی وردی پہنے ہوءے تھے ۔کہاں کے تھے یہ جنہوں نے اپنی جان وطن کے لءے قربان کر دیا ۔کیا فرقہ تھا ان کا ان کے ماتھے پہ تو نہیں لکھا تھا۔کہ یہ فلاں ہے اور وہ فلاں ہے کیا بھارتی گولے نے استور گھانچے اور غذر کی نشاندہی کی ۔ نہیں۔۔ دشمن کے گولے کو یہ پہچان نہیں ہوتی ہے کہ کون کہاں کا ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وطن کے ان سپوتوں نے جام شہادت نوش کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ دھرتی ماں کی آن اور شان اور اس کی آزادی کے لءے ذات قبیلہ فرقہ کوءی معانی نہیں رکھتا وطن کے لءے صرف ایک ہی جذبہ کام آتا ہے اور وہ جذبہ وہ عزم وہ لگن وطن کا تحفظ اور حفاظت ہے
خونِ دل دے کے نکھاریں گےرُخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
ان ماءوں اور باپوں کو سلام جو ایسے سپتوں کو پروان چڑھاتی ہیں اور وقت آنے پر اپنا آخری سہارا وطن کی حفاظت کے لءے بطور نذرانہ پیش کر دیتے ہیں اور اف تک نہیں کرتے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ شہید زندہ و جاوید ہوتے ہیں ۔یہ ایک عظیم رتبہ ہے جو قسمت والوں کو ہی ملتا ہے جن کی مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے ۔ان سپوتوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی قربانیوں کا لاج رکھتے ہوءے سب اس بات کا عہد کریں کہ ہم جس شعبہ ہاءے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اپنا کام ایمانداری اور لگن سے انجام دیں اور رشوت کرپشن اقربا پروری اور نا انصافی سے باز رہءیں ۔پاک فوج کے جوان جہاں وطن کی دفاع میں شہادت کے رتبے میں پہنچ جاتے ہیں وہاں سولین افراد جھوٹ مکر اور فریب ، رشوت کرپشن سے توبہ کر کے ایمانداری کے رتبے پر فاءز ہو سکتے ہیں، اور ایمانداری کوءی کم رتبہ نہیں ہے ۔ اس کی اہمیت اس واقعہ واضح ہوجاتی ہے ۔احد کے میدان میں حضرت مصعب رضی اللہ عنہ زمین پر شہید پڑے تھے اسی دن حضور کا جھنڈا سی کے ہاتھ میں تھا اور حضور ﷺ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑے تھے اس وقت رسول خدا نے ایک آیت پڑھی تھی ۔جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے ۔ ایمان والوں میں کچھ مرد ایسے ہیں کہ انہوں نے جس بات کا اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچ کر دکھلایا پھر بعض تو ان میں سے وہ ہیں جنہوں نے اپنا ذمہ پورا کر لیا اور بعض ان میں سے اللہ کے راستے مین جاں قربان کرنے کے لءے راہ دیکھ رہے ہیں اور وہ ذرہ برابر نہیں بدلے۔مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق جان تو جسم سے نکلنی ہی ہے آج یا کل یا کسی وقت اور اورکسی دن رات قبر میں سونا ہی ہے تو ڈر کس بات کا جب ہم نے ایک دن جان دینی ہے تو کیوں نہ اپنی جان اللہ کے راستے قربان کرنے کے لءے ہر دم تیار رہءیں۔ سلام ہے جی بی کے ان تین سپوتوں پر جنہوں نے پاکستان کی دفاع میں اس کی سرحدوں میں اپنے لہو سے آزادی کا دیپ روشن رکھا
تمہاری ضو سے دل نشین جبین کائنات ہے
بقا کی روشنی ہو تم پناہ اندھیری رات ہے
شہید کی جوموت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوۃ ہے