بتاریخ 18 اگست1920 کو مون سون کی طوفانی بارش میں کرکزی ہنزہ کو سیراب کرنے والی واحد نہر شاہ سلیم خان کو سیلابی ریلے سے بچانے کی جدو جہد مین مصروف محمد فقیر شہید ہوگئے ہیں یہ افسوس ناک سانحہ دن ایک بجے پیش آیا اور میت تک نہ مل سکا۔
یہ کہ امسال مرکزی ہنزہ کے بہت سے گاؤں جن میں التت، مومن آباد، گنش، ڈورکھن اور علی آبادشامل ہیں میں پانی کا شدید ترین بحران کا سامنا ہے لوگوں کی تمام دو فصلی کاشت ختم ہوگئی ہے اور ساتھ ساتھ لاکھوں کی تعداد میں قیمتی پھل دار درخت جن میں چیری، خوبانی وغیرہ سوکھ گئے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
پانی کے اس بحران کے سلسلے میں ہنزہ ضلعی انتظامیہ اور مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی اور عوام دشمنی کا یہ عملی ثبوت عیاں ہے۔ کہ یہاں کے محنت کش پریشان حال عوام اپنی مدد آپ کے تحت پچھلے چھ مہینوں سے التر نالہ کی سیلابی بہاؤ یعنی طغیانی کے ساتھ برسر و پیکار ہیں۔ان چھ مہینوں میں شہید محمد فقیر کے علاوہ مختلف رجاکی (یعنی دوران کام) کئی جوان زخمی بھی ہوچکے ہیں لیکن سرکار ٹس سے َمس نہیں۔
شہید محمد فقیر ولد رب نواز: مذکورہ جناب محمد فقیر شہید کا تعلق قبیلہ برونگ علی آباد سے تھا یہ کہ شہید کی پہلی شریک حیات سے دو لڑکے ایک لڑکی جبکہ دوسری بیوی سے دو لڑکے چار لڑکیاں زیر تعلیم قابل ترین اولاد ہیں مرحوم و مغفور اپنے زیر تعلیم اولاد کی تعلیمی اخراجات و دیگر واجبات کے واحد کفیل تھے ان کے ابھی صرف ایک دختر کی شادی ہوئی ہے اپنے تمام اولادوں کی کفالت کیلئے دن رات محنت مزدوری میں ہمہ وقت مصروف عمل رہتے تھے یہ کہ زیر تعلیم اولاد کیلئے (دنیوی مشکلوں کا آسرا) ایک شفیق والد ماجد کے اچانک جدائی ایک قیامت سے کم مرحلہ نہیں ہوتا ہے ان کے اولاد سہمے اور چہرے بجھے بجھے نہایت غمزدہ نظر آرہے تھے۔
یہ کہ شہید محمد فقیر کے بے شمار رفاہ عامہ کے کاموں میں سے خاص کر ایک معروف کام یہ تھا کہ مرکزی ہنزہ خصوصاً ڈورکھن اور ضلعی ہیڈ کوارٹر علی آباد کی زرعی آبپاشی نظام میں رانقدر خدمات چھوڑ گئے ہیں۔ نہر شاہ سلیم خان کے علاوہ آسمان کو چھوتی ہوئی پر خطر حسن آباد نہر کا سربند ششپر گلیشر کی نقل و حرکت یعنی لیفٹ رائٹ مومنٹ کی وجہ سے مذکورہ نہر کا سربند سالانہ بنیاد پر تعمیری کام کی خسارے کا ٹھیکہ ”بطور ایک قومی فریضہ“ باحسن طریقے سے سر انجام دیتے رہے جبکہ فائدے کا ٹھیکہ نمبرار وں کے ذمے ہوتا تھا اور دس سے بارہ میل پر محیط لمبے ان دونوں نہروں کی سالانہ بھل صفائی میں پیش پیش رہتے۔ اور کئی سالوں تک نظام آب پاشی یعنی پانی برابر تقسیم کی سیرابی مشکل معاملات میں بحیثیت جرگہ انچارج بخوشی اس عوامی خدمت کو بخیر و خوبی سرانجام دینا جیسے بہت سے فلاحی امور کو تا عمر سرانجام دیتے ہوئے شہادت کا رتبہ پایا۔
قارئین کرام! ان دنوں کی موسلادھار بارش، التر نالہ کی خوفناک دمدمی ہوائیں اور نالہ میں سیلابی طغیانی ایسے حالات میں اپنے گاؤں کی نہر کا سربند کو بچانے کی فکر میں مصروف اپنی جان سے بے خبر تنہا قومی فریضہ کی انجام دہی کے دوران سیلابی ریلے کی نذر ہوجائے اور ایسے میں باپ کا جنازہ تک اولادوں کو نصیب نہ ہوجو اپنے والد ے کی صورت کی آخری دیدار کرتے ہوئے کچھ غم کو کم کیا جاسکے۔
بتائیے اولاد والو! ان کے اولادوں پر اور اس خاندان پر کیا گزر تا ہوگا؟؟ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا کیا بنے گا؟؟
۱لہٰذا شہید آبِ وطن محمد فقیر ابن رب نواز(آفت زدہ التر نالہ نہر شاہ سلیم سربند) کی پریشان حال اولاد کو تیس لاکھ سے زائد معاوضہ مذکورہ شہید کی رسم چہلم سے قبل حکومت کو دینا چاہئیے جس سے شہید کی بیٹی اور بیٹے کی شادی جو پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق رخصتی ممکن ہوسکے اور دیگر پریشانیوں کا ازالہ بھی ہو کیونکہ اس سے پیشتر جی بی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کے پسماندگان کو سرکار نے معاوضے دئیے ہیں اخلاقی لحاظ سے نام لینا مناسب نہیں ہے۔
زیر تعلیم شہید کی اولاد کی تعلیمی فیس یونیورسٹی سطح تک معاف ہونا چاہئیے۔
تعلیمی معیار کے مطابق کسی بھی سرکاری محکمے میں ان کے کسی ایک اولاد کو ایک نوکری فی الفور مل جانا چاہئیے تاکہ شہید کا گھر کا چولہا جلتا رہے۔
قومی جذبے سے سرشار فداکارانہ اور جرات و شجاعت کی بے مثال تنہا قدرری آفت سے مقابلہ کرنے پر قومی سول ایوارڈوں میں سے کوئی ایک ایوارڈ کا متحق قرار دینا چاہئیے۔
تعزیتی ریفرینس: یہ کہ شہید محمد فقیر کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس (احتجاجی دھرنا کی شکل میں) کالج چوک علی آباد شاہراہ ریشم پر منعقد کیا گیا جو ۰۱ اگست 2019 دن گیارہ سے تین بجے تک پسماندگان، قریبی رشتہ دار، دوست و احباب اور خاص کر وکلاء برادری، تمام سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں و نوجوانوں نے بھر پور شرکت کی۔ جس میں شہید کی قومی خدمات کے حوالے سے زبردست الفاظ میں عقیدت کا اظہار کیا گیا۔اور خصوصاًشہید کی پسماندگان کیلئے فوری حکومتی امدادی ریلیف دینے سے متعلق زور دیا گیا۔
اور اس بات پر بھی نہایت غم و غصے کا اظہار کیا کہ سنٹر ہنزہ کے نظام آب پاشی کی تباہی یعنی نہروں کے سربند ملیا میٹ اور پینے کا صاف پانی کے بحران جیسے مشکل حالات میں سرکار کی عدم دلچسپی اور میلے، ڈھول ڈھماکوں میں دلچسپی پر شدید احتجاج کیا گیا آئندہ تمام نہروں کے سربند سرکار کے حوالے کرنے کے علاوہ اور بھی دیگر اہم نکات شامل کرکے قرار دار پاس کیا گیا۔جس میں بعض مفاد پرست نمبرداروں پر بھی عدم اعتماد کیاگیا اس طرح سرکار پر زور دیا کہ قرارداد میں شامل تمام مطالبات پر جلد عمل درآمد کو یقینی بنائے عدم صورت میں اس سے بھی زیادہ شدید عوامی رد عمل کا سرکار کو سامنا کرنا ہوگا اور اسی کے ساتھ تعزیتی احتجاجی ریفرنس کو برخاست کردیا گیا۔
ہنزہ کی تاریخ کی مشکل تریں گھڑی: یہ کہ گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع کی طرح کاش کوئی مضبوط عوامی نمائندہ اس مشکل گھڑی میں موجود ہوتا تو کم از کم ضلع ہنزہ میں موجودایک درجن سے زائد سرکاری و نیم سرکاری اداروں سے پوچھ لیتے کہ اتنے ادارے ہونے کے باوجود ہنزہ کی تاریخ کی مشکل ترین (یعنی پرانا نظا م آب پاشی کی تباہی) کی گھڑی میں ان اداروں کے کردار آج تک صفر کیوں رہا ہے؟
اس مرکزی ہنزہ کے نظام آب پاشی آفت کی نذر ہوگئی ان چھ ماہ میں غریب عوام کی تمام دو فصلی، فصلیں دیکھتے دیکھتے تباہ ہوگئیں اور قیمتی پھل دار کروڈوں درخت (اور غیر پھل دار درختوں) کا کوئی حساب ہی نہیں سوکھ کر ختم ہوگئے۔ایسے میں حکومتی ادارے اور ان کے چمچے میوزک شو جیسے پروگراموں میں جی بہلاتے رہے ہیں کیا یہی کچھ سرکار کی ڈپٹی ہوتی ہے؟ اگر یہی ادارے پانی سربندوں کے حوالے سے متاثرہ عوام کی مدد کرتے تو محمد فقیر شہید طوفانی ریلے کی نذر نہیں ہوتے اور سنٹرل ہنزہ کے کئی جوان زخمی نہ ہوتے فصلیں تباہ اور چیری و خوبانی کے کروڑوں درخت سوکھنے سے بچ جاتے۔
سرکاری تماشہ بین محکموں کی فہرست کچھ یوں ہے:
۔ ڈسٹرکٹ ایڈمنسڑریشن ”اے سی اور ڈی سی صاحبان“
۔ پی ڈبلیو ڈی ”بی اینڈ آر ایکسیئن صاحب“
۔ واٹر منیجمنٹ ”اے ڈی صاحب“
۔ جی بی ڈی ایم اے ”اے ڈی صاحب“
۔ ریسکیو ۲۲۱۱ ”سی ڈی آئی صاحب“ ۶۔ اے ڈی ایم اے ”اے ڈی صاحب“
۔ ایل جی اینڈ آر ڈی ”ڈی ڈی صاحب“
۔ فارسٹ ”ڈی ایف او صاحب“
ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ ”ڈی ڈی صاحب“ہیں۔
نیم سرکاری پرائیویٹ ادارے بھی ضلع ہنزہ میں موجود ہیں ان ڈھیر سارے محکمے (پانی بحران کی مشکل گھڑی میں) بھی مدد گار ثابت نہیں ہوئے۔ہر ایک محکمہ اگر اپنے حصے کے فرض کو نبھا لیتے تو آج مرکزی ہنزہ کی زمینیں بنجر نہیں ہوجاتے،اور محمد فقیر شہید کے بچے یتیم نہ ہوجاتے۔
یہی وجہ تھی کہ محمد فقیر شہید کی المناک موت کے غم کے ساتھ شاہراہ ریشم پر احتجاج کرتے ہوئے تعزیتی ریفرنس منعقد کرنا پڑا اس ریفرنس سے ایک درجن سے زائد باذمہ دار شخصیات نے خطاب کرتے ہوئے غم و غصے کا اظہارکیا اگر سوچا جائے تو ہنزہ ضلعی انتظامیہ متعلقہ سارے محکمے اور صوبائی و مرکزی حکومتوں کے منہ پر طمانچہ ہے حکام کی دانستہ عدم دلچسپی کی وجہ سے آب پاشی کا نظام درہم برہم کراکر سرسبز و شاداب علاقے کو شدید نقصان پہنچا یا ہے
نمائندہ کی اہمیت: وادی نگر حلقہ ۴ سے تعلق رکھنے والے چند کوہ پیما حالیہ دنوں جوکہ”شیکار چوٹی“ پہ پھنس گئے تھے حلقہ ۴ کے عوامی نمائندہ جناب جاوید حسین کی کوششوں سے ان کوہ پیماؤں کو ریسکیو کیاگیا جوکہ ایک کی موت واقع ہوئی جبکہ تین زخمی ہوئے تھے۔ جن کو ہیلی کاپٹر کے زریعے بروقت ریسکیو گیا گیا اسی طرح اگر ہنزہ کا نمائندہ ہوتا تو نہر شاہ سلیم کے سربند پہ بروقت اقدام کرتے اور اس طرح کی قیمتی جان ضائع نہ ہوجاتی اور نہ فصلیں تباہ ہوتیں نہ درخت سوکھ جاتے جبکہ ہنزہ کو عوامی نمائندگی سے دانستہ طور پر محروم رکھا گیا ہے، جوکہ شہداء کی دھرتی اور خاص کر لیفٹنٹ کرنل راشد کریم بیگ کی قربانی کی بے قدری کے مترادف ہے۔
وما علینا الا البلاغ المبین