ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی کو میں پچھلے کافی عرصے سے پڑھتا رہا ہوں اور ان سے کئی بار علمی ملاقاتیں بھی ہوتی رہی ہیں۔قلم کے ساتھ ہمیشہ بڑی حد تک انصاف کرتے پایا ہے مگر نہ جانے جب بھی شندور کے مسئلے پر قلم اٹھاتے ہیں قلم اور انصاف میں فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔انھیں تصویر کا ایک ہی رخ نظر آتا ہے اور ہر بار وہی چند مخصوص شہادتوں کے ساتھ اس مسئلے کو ایک خاص (من پسند) رخ دینا چاہتے ہیں۔اپنے حالیہ تحریر میں انھوں نے گلگت انتظامیہ پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ پڑوسی ملک بھارت کے ہاتھوں سازش کا شکار ہے جس پر کور کمانڈر پشاور اور حفیظ الرحمان نے بروقت قابو پایا۔ فیضی صاحب نے بڑی کوشش کی ہے شندور میں لکھے گئے “دل دل پاکستان” اور “پاکستان میری آن پاکستان میری جان” کے بل بورڈ اور سائن بورڈ کے ذریعے چترال سکاؤٹس کو محب وطن اور جی بی سکاؤٹس اور انتظامیہ کو اس کے برعکس ثابت کر سکے۔
ان کے مطابق غذر اور گلگت بلتستان کا شندور سے دور دور کا تعلق نہیں تمام تر شہادتیں اور حقائق یہ ثابت کرتی ہیں کہ شندور چترال کا اٹوٹ انگ ہے وہ ایک طرف سے چترال اور گلگت بلتستان کی پیار محبّت اور بھائی چارگی کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف سے اس پر کاری وار بھی کر رہے ہیں۔ فیضی صاحب انتہائی “خوبصورتی” سے غذر کے عوام کو باشعور اور محب وطن گردانتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کبھی خارجی عناصر کے پھیلائے ہوئے جال میں نہیں آئیں گے۔ مجھ یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر اتنے بڑے پائے کے لکھاری آخر کیوں کر ایسے الزام تراشیوں، قیاس آرایوں اور کچھ اداروں اور شخصیات کی تعریفوں کے پل باندھنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ اگر آپ گلگت بلتستان اور چترال کی محبّت کے واقعی اتنے علمبردار ہیں تو اپنی اس تحریر میں کچھ اور حقائق کا بھی احاطہ کرتے۔ہاں آپ ایک فریق کی محبّت میں اتنے مست ہو گئے کہ دوسروں کو بھارتی ایجنٹ، سازشی جال میں آنے والے، شندور کے مہمان، ملک اور فوج سے بغض رکھنے والے(اشارتاً و کنایتاً) ظاہر کرنے کی ہر ممکن سعی کی۔ ایسی تحریروں سے محبت نہیں بلکہ عوام کے دلوں میں ایک دوسروں کے لیے بغض اور نفرت بڑھتی ہے اور کل اگر خدا نخواستہ یہی نفرت کسی بڑے تصادم میں بدل جاتی ہے تو اس کے کچھ کردار اپنی تحریروں کے ذریعے نفرت باٹنے والے بھی ہو نگے۔ خواہ وہ شندور کے اس پار کے ہوں یا اس پار کے۔
فیضی صاحب جیسے پڑھے لکھے لوگوں کو نہ صرف دونوں طرف کے عوام کی ایک بڑی تعداد پڑھتی ہے بلکہ ان کی رائے کو مقدم بھی سمجھتی ہے۔مٹی سے محبت میں اس حد تک آگے چلے جانااس پایے کے لوگوں کا شایان شان نہیں ہے۔ایک ادنی طالب علم کے ناطے یہ درخواست ہے کہ ذرا حالیہ تحریری ارشادات پر ضرور نظر ثانی کریں۔ اپنے علم، عقل اور تجربے کو نہ صرف شندور اور چترال تک محدود رکھیں بلکہ گلگت بلتستان اور پاکستان تک بڑھائیں اور ہاں گلگت بلتستان کے حوالے سے آپ کی بقیہ تحریریں اور کام ہر حوالے سے حوصلہ افزا ء ہیں سوائے شندور پر لکھی جانی والوں تحریروں کے۔ گلگت بلتستان کے عوام آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دونوں علاقوں کے عوام کا یہ محبّت شندور اور دیگر سرحدوں سے بڑھ کر ہے۔ اگر چترال اور جی بی کے لوگ بشمول آپ جیسے لکھاری و دانشور حضرات اس صدیوں محیط بھائی چارگی اور روایات کو ایک مخصوص عینک سے دیکھیں گے تو جگہ جگہ شندور جیسے مسئلے پیدا ہونگے۔
گلوبلائزیشن اور نالج سوسائٹی کے اس دور میں لوگ ایک دوسروں کے قریب آرہے ہیں سرحدیں اور نفرتیں کم ہو رہی ہیں تعلقات استوار ہو رہے ہیں راستے کھل رہے ہیں اور ہم انجانے میں اپنے ہی سادہ لوح عوام کے دلوں میں نفرتیں بڑھا رہے ہیں فی الوقت بھی ایک چھوٹی سی خلیج ہے جسے بآسانی ختم کیا جا سکتا ہے مگر ہم اسے مزید گہرا کر رہے ہیں جس طرح آپ نے جی بی انتظامیہ اور جی بی والوں کو بھارتی ایجنٹ گرداننے کی کوشش کی ہے میں ان کو نہیں بلکہ دو بھائیوں کے درمیان میں نفرتیں ابھارنے اور انھیں ایک دوسروں سے دور لے جانے اور تصادم جیسی صورتحال کی طرف لے جانے والوں کو ایجنٹ سمجھتا ہوں۔
یہاں میں نہیں سمجھتا کہ آپکی تحریر کے جواب میں ایسی تاریخی و دیگرحقائق کو گٹھ جوڑھ کرسامنے لانی کی ضرورت ہے اور نہ ہی چترال کی انتظامیہ کو افغانستان یا روس کی ایجنٹ بنا دینا حقیقت پسندانہ بات ہے چترال کا شندور پر دعوی ہے اور چند حقائق اس حوالے سے آپ نے سامنے لانے کی کوشش کی ہے بالکل اسی طرح کے دلائل و حقائق کی بنیاد پر ہی غذر اور گلگت بلتستان والے بھی شندور پر اپنی ملکیت کا دعوی ظاہر کر رہے ہیں۔ اس وقت انتہائی صبر، محبت پر امن طریقے سے اس میلے کے انعقاد کو یقینی بنانا اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ مجھ چترال کے عوام کے ساتھ ساتھ وہاں کی مقامی انتظامیہ سے بھی محبت ہے کیوں کہ وہ امن پسند اور صلح جو انسان ہیں۔ غذر کے عوام اور چترال کے عوام کبھی تصادم کی طرف نہیں جائیں گے۔ چاہے کوئی قلم کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے جتنی بھی اپنی توانائی خرچ کرے۔ دونوں طرف کے عوام سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل تیسرے متفقہ فریق اور بات چیت کے ذریعے ہی نکلنا ہے۔اور تمام قانونی، تاریخی اور دیگر شہادتیں اس پلیٹ فارم میں پیش کرنی ہے نہ ہی ان دلیل کو طور مروڑ کر عوام کے جذبات کو ابھارنے کے لئے استعمال کرنا ہے۔ جناب فیضی صاحب! آپ نے جو چند جذباتی قسم کے شواہد اپنی تحریر میں پیش کی ہے جو پہلے بھی ایک دو بار آپکی تحریروں میں پڑنے کو ملی ہیں بار بار یہی چیزیں قرطاس ابیض پہ لانے اور وہ بھی ایک ایسے موقعے پہ جب دونوں سائیڈ کے عوام اس مسئلے کی وجہ سے ایک خاص جذباتی کیفیت سے گزر رہے ہیں اور شندور میلہ کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں اگر اسی طرح اس جذباتی کیفیت کو اگر اور ہوا دی جائے تو انجام بہت بھیانک بھی نکل سکتا ہے اور اس کا ادراک ہم سب کو ہے۔
اگر ہم علاقائیت اور تعصب کے عینک اتار کر دیکھیں تو”شندور کی حق ملکیت” جبراً قبضے، بائیکاٹ، الزام تراشی، حقائق کو طوڑ مروڑ کر پیش کرنے اور نفرت انگیز بیانات میں نہیں بلکہ تاریخی دستاویزات اور حقائق میں پوشیدہ ہیاور جس کے پاس جس قدر مضبوط قانونی و تاریخی شہادتیں، دستاویزات اور حقائق ہیں “شندور” اسی کا ہے۔۔۔ زبردستی قبضے کرنے والوں، الزامات، بائیکاٹ اور نفرتیں پھیلانے والوں کا نہیں۔ ضروررت اس بات کی ہے کہ ان شہادتوں اور دستاویزات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور عوامی جذبات کوغلط وقت میں ابھارنے کے لئے استعمال کے بجائے اس کے متعلقہ فورم کو استعمال میں لانا چاہیے۔
ایک بہت بڑا دانشور اگر اپنی قلم سے اس طرح کی انصاف کرتا ہے تو ادنی قسم کے لکھاری اور یہاں کے عوام کی سوچ اور ردعمل کا کیا کہنا۔یہ گلہ آپ سے اس لئے ہے کہ میں آپ کی سوچ، علم، کام اور تجربے کی دل سے قدر کرتا ہوں۔ یونیورسٹی آف پشاور میں زیر تعلیم رہنے سے لے کر اب تک کسی نہ کسی طرح وقت نکال کر آپ کی تحریروں کو پڑھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔آپ جیسے لوگ ان پہاڑوں کے درمیان رہنے والوں کی آواز کو بطور (Opinion Leader ) باقی دنیا تک پہنچا سکتے ہیں۔ پر خدا را! ان کہساروں کے باسیوں میں نفرتیں نہیں محبّتوں کے بیج باٹنا۔ کیوں کہ یہ محبّت میں جس حد تک آگے جاتے ہیں نفرت میں اس سے بھی کئی درجے آگے جا سکتے ہیں. یہ پیار کرنے اور پیار کو سمجھنے والے لوگ ہیں۔۔۔ اور پیار کو ہی ہمیشہ مقدم سمجھا ہے۔۔۔ بس دعا یہی ہے خدا ہم سب کو ہر قسم کے مفادات اور اختلافات سے بالاتر ہو کر سوچنے سمجھنے اور لکھنے کی ہمت دے۔
مضامین
سر زمین ہنزہ ہر ہائنس پرنس کریم آغا خان کی پہلی تشریف آوری: ترقی اور دنیا کے ہم عصر علمی و فلسفیانہ نظریات پر ان کی مظبوط گرفت۔
(مقالہ خصوصی) عیاں را چہ بیان کے مصداق یہ تاریخی حقیقت روز روشن کے مانند ہے کہ ماہ اکتوبر کی بیس سے چھبیس تاریخ کا