ہنزہ نیوز اردو

شرمندگی، ندامت اور افسوس

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

عبدالحمید خان نے سیاسی سفر کا آغاز ائیر مارشل اصغر خان کی پارٹی تحریک استقلال کے پلیٹ فارم سے کیا اور غالباً 1977میں سے 1987تک تحریک استقلال کے سرگرم کارکن کی حیثیت سے کام کرتے رہے، تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان مرحوم کی دادی کا تعلق یاسین سے تھا اور عبدالحمید خان کے ساتھ اصغر خان مرحوم کی رشتہ داری بھی بنتی تھی اور غالباً اسی رشتہ داری نے عبدالحمید خان کو تحریک استقلال کا حصہ بننے پر مجبور کر دیا، بقول عبدالحمید خان 1988کے بد ترین فرقہ وارانہ فسادات اور ان فسادات میں ملوث عناصر کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہ ہونے کا جواز بنا کر قومی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے درس و تدریس کے شعبے کو اپنایا اور الازہر ماڈل سکول میں بطور استاد دو سال تک خدمات سر انجام دیتے رہے، 1990میں نواز خان ناجی اور عبدالحمید خان نے گلگت بلتستان کے عوام کی خواہشات کے مطابق آئینی حقوق کے حصول کیلئے بالاورستان نیشنل فرنٹ  مقامی سیاسی جماعت کے قیام کا فیصلہ کیا اور بہت کم عرصے میں نوجوانوں کی ایک معقول تعداد نے آئینی حقوق کے حصول کیلئے بالاورستان نیشنل فرنٹ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنا شروع کر دیا، چند عرصے کے بعد نواز خان ناجی اور عبدالحمید خان میں اختلافات نے سر اٹھانا شروع کر دیا اور بی این ایف دو دھڑوں بی این ایف نواز خان ناجی گروپ اور بی این ایف حمید گروپ میں تقسیم ہو گئی، اب دونوں تنظیمیں کالعدم ہو چکی ہیں اور نواز خان ناجی نے سیلف امپاورمنٹ اینڈ گورننس آرڈر 2009کے تحت 2012کے ضمنی اور 2015کے عام انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے آٹھ سال تک گلگت بلتستان اسمبلی کے فلور پر بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی آواز مقتدر حلقوں تک پہنچانے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور نواز خان ناجی کے اس اقدام سے ملک دشمن قوتوں کے منفی پروپیگنڈے کو بے اثر کرنے میں مدد ملی، نواز خان ناجی کی طرز سیاست اور بہترین حکمت عملی نے عبدالحمید خان کے نقش قدم پر چلنے والی پڑھی لکھی مخلوق کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ حقوق کے حصول کیلئے حقیقی جدوجہد کرنے والے غیر ملکی آقاؤں یا طاقتوں کی بھیک کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ کسی بھی قوم یا ملک کے مسائل کو حل کرنے کیلئے اس علاقے یا ملک کے عوام کے درمیان بیٹھ کر چھے برے حالات سے نبرز آزما ہوتے ہوئے جائز ترین حقوق کا حصول ممکن بنانے کیلئے جدوجہد کرتے ہیں اور حقوق کا حصول ممکن بناتے ہیں اور حقوق کے حصول کیلئے بہترین راستہ بھی پر امن جدوجہد ہے۔۔۔
عبدالحمید خان کو بھی نواز خان ناجی کے راستے پر چلنے کی ضرورت تھی لیکن عبدالحمید خان جذباتیت کا شکار ہو چکے تھے، 14اگست 1997کا دن عبدالحمید خان اور ساتھیوں کیلئے امتحان سے کم نہ تھا، عبدالحمید خان کے سامنے دو راستے تھے، ایک راستہ تو یہی تھا کہ ریاست پاکستان اور ریاستی اداروں کے ساتھ مل بیٹھ کر آگے بڑھتے اور بہترین سیاسی بصیرت اور حکمت عملی کے ذریعے آئینی حقوق کے حصول میں گلگت بلتستان کے عوام اور یوتھ کی راہنمائی فرماتے، دوسرا راستہ تشدد، گالم گلوچ، کھینچا تانی اور مار دھاڑ کا تھا، اور اس راستے کا انتخاب کرنے کا سیدھا سادھا مطلب یہی تھا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو کنفیوز کیا جائے، نوجوان نسل کا مستقبل خراب کیا جائے اور ایک ایسی کمیونٹی کو داغدار کرنے کا راستہ ہموار کیا جائے جس نے قیام پاکستان سے لیکر دفاع وطن تک اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے فخر محسوس کیا۔۔
عبدالحمیدخان نے حسب توقع تشدد، دھینگا مشتی اور ہنگامی آرائی کے راستے کا انتخاب کیا اس راستے کا انتخاب کرنے کیلئے عبدالحمید خان اور ساتھیوں نے 14اگست 1997کے دن بلیک جوبلی منانے کا اعلان کرتے ہوئے طل جنگ بجا دیا تھا، 14اگست 1997کو قیام پاکستان کے پچاس سال مکمل ہو گئے تھے،پوری پاکستانی قوم کی طرح گلگت بلتستان کے عوام بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ گولڈن جوبلی تقریبات منانے کیلئے تیاریاں عروج پر تھیں، پاکستان کی گولڈن جوبلی کو بلیک جوبلی کے طور پر منانے کا فیصلہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ براہ راست تصادم کو دعوت دینے کے مترادف تھا، جیسے ہی عبدالحمید خان اور ساتھیوں کی جانب سے بلیک جوبلی منانے کے باضابطہ اعلان کے فورا! بعد گرفتاریوں کیلئے چھاپے پڑنے شروع ہو گئے تاہم 14اگست 1997دن گیارہ بجے تک عبدالحمید خان اور ساتھی مقامی پولیس کے ہتھے نہ چڑھ سکے اورطے شدہ منصوبے کے تحت بلیک جوبلی منانے کیلئے دو درجن سے زائد کارکن عبدالحمید خان کی قیادت میں نمودار ہو گئے اور گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1گلگت کے سامنے مجمع لگانے کی کوشش کی، اس تمام تر صورتحال کا میں عینی شاہد ہوں کیونکہسینئر صحافی سعادت علی مجاہد کے ساتھ موقع پر موجود تھا، جیسے ہی عبدالحمید خان نے مائیک سنبھال کر تقریر شروع کی تو ڈی ایس پی راجی الرحمت (تب ڈی ایس پی) کی قیادت میں مقامی پولیس نے دھاوا بول دیا اور معمولی ہاتھا پائی، پتھراؤ اور ہوائی فائرنگ کے بعد مجمع منتشر ہو گیا جبکہ عبدالحمید خان کو گرفتار کسکے سٹی تھانہ منتقل کر دیا گیا، اس واقعے کے چند ماہ بعد عبدالحمید خان اور ساتھی ضمانت پر رہا ہو گئے، گولڈن جوبلی کو بلیک جوبلی کے طور پر منانے کی اس کوشش اور اس مقصد میں ناکامی کے بعد عبدالحمید خان کا غصہ اور جذباتیت عروج پر پہنچ گیا جس کے بعد وہ کسی بھی غلط راستے پر چلنے کیلئے خود کوذہنی طور پر تیار کر چکا تھا، پاکستان سے فرار کیلئے موقع کی تلاش کے دوران مئی 1999میں نیپال کیلئے وزٹ ویزے کے حصول میں نہ صرف کامیاب رہا بلکہ کراچی ائیر پورٹ سے اڑان بھرنے والی فلائیٹ تک پہنچنے کے تمام مراحل بخوبی کرکے نیپال بھی پہنچ گیا اور بقول عبدالحمید خان کے نیپال میں راء کے ایک ایجنٹ سے معاملات طے کرکے ہندوستان اور پھر را کے نیٹ ورک کا وظیفہ خور آلہ کار بن کر بیس سال تک گلگت بلتستان میں نوجوانوں کو پاکستان سے متنفر کرنے کی سازشوں میں مصروف رہا، عبدالحمدے خان کا کہنا ہے کہ راء کے چیف کے ساتھ بھی ملاقات کر چکا ہے اور راء کی خواہش تھی کہ عبدالحمید خان کے ذریعے گلگت بلتستان میں تخریب کاری کیلئے نیٹ ورک منظم کیا جا سکے، مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کی سرحد پر ریڈیو سٹیشن کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں سے پاکستان کے خلاف منفی اور ذہریلا پروپیگنڈا تواتر کے ساتھ کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام کو پاکستان سے متنفر کیا جا سکے اور جلا وطن حکومت کیلئے راستہ بھی ہموار ہو سکے، عبدالحمید خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے راء کے اعلیٰ حکام کو دو ٹوک جواب دے دیا تھا کہ وہ ان تینوں میں سے کسی ایک نکتے پر بھی عمل درآمد کی پوزیشن میں نہیں ہیں، عمل درآمد نہ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہونے کی وجوہات عبدالحمید خان نے تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں تاہم کالم کی طوالت کی وجہ سے تفصیلات کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔۔
عبدالحمید خان نے شرمندگی، ندامت اور افسوس کا اظہار کیا ہے، انہوں نے سینئر صحافیوں کے سامنے جذبات کا شکار ہوکر غلط راستے کے انتخاب کا بھی اعتراف کیا، عبدالحمید خان نے تمام نوجوانوں کو واضح اور دو ٹوک پیغام دیا کہ وہ حقوق کے حصول کیلئے آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کریں، پاکستان ہی گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کا ضامن ہے اور سبز ہلالی پرچم تلے ہم ایک قوم بن کر دشمن قوتوں کے مزموم عزائم کو ناکام بنا سکتے ہیں۔۔۔
عبدالحمید خان کو میڈیا کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے، قانونی کارروائی کا آغاز بھی ہو گیا ہے اور عدالتوں سے ضمانت ملنے کی صورت میں عبدالحمید خان آزادانہ طور پر اپنی معمول کی سرگرمیاں شروع کرینگے تاہم ایک بات تو طے ہے کہ عبدالحمید خان سیاسی و سماجی معاملات سے فی الحال دور رہیں گے، عبدالحمید خان کو میڈیا کے سامنے لائے جانے کے حوالے سے سوشل میڈیا میں ہر قسم کے تبصرے جاری ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے عبدالحمید خان پر لعن طعن کرنے والے اپنے بعض دوستوں سے گزارش کرونگا کہ وہ عبدالحمید خان کی طر ح جذباتیت کا شکار نہ ہوں، بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے اسلحہ اٹھانے والے فراری کمانڈرز کو بھی ریاست نے عام معافی کے ذریعے راہ راست پر لانے کی کوشش کی ہے اور قومی دھارے میں شامل ہونے والوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ریاست کے ماں کا درجہ رکھنے کی روایات کو زندہ رکھا ہے۔۔
دوسری جانب عبدالحمید خان کے کسی ایک بھی ساتھی یا ورکر پر اسلحہ اٹھانے یا مذہبی فسادات کی راہ ہموار کرنے کیلئے کسی بھی قسم کی کوشش کا کوئی ثبوت نہیں ملا، البتہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال اور لیٹریچر کے ذریعے آزادی کی تحریک تیز کرنے کیلئے منظم طریقے سے مہم چلائی گئی، ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھانے والوں کو عام معافی اور فراری کمانڈرز کے ہتھیار ڈالنے کی کوریج قومی میڈیا کے ذریعے کی جاتی رہی اور پاکستان بھر میں ریاستی اداروں کے اس اقدام کو سراہا گیا لیکن مقام حیرت ہے کہ اپنے کئے پر ندامت اور شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان زندہ باد اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگانے والے عبدالحمید خان کو اس عمل (پاکستان زندہ باد) پر لعن طعن کررہے ہیں، عبدالحمید خان کے راستے پر چلنے والوں کو گلگت بلتستان کے عوام نے پہلے بھی مسترد کیا ہے اور آئندہ بھی مسترد کرینگے اور ریاستی اداروں کی اس کامیاب حکمت عملی کا مثبت پہلو یہی ہے کہ عبدالحمید خان کے راستے پر چلنے کی کوشش کرنے والے مٹھی بھر نوجوانوں کو بھی راہ راست پر لانے کیلئے راستہ ہموار ہو چکا ہے۔۔۔

مزید دریافت کریں۔