[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/08/sharaf-uddin.jpg” ]محمد شراف الدین فریاد[/author]
گزشتہ دنوں ہمارے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن صاحب نے کیا خوب کہا کہ اگر سمت درست ہوتو ترقی سے کسی کو کوئی روک نہیں سکتا ۔ آزادی کے بعد ہمارے 30 سال ضائع ہوگئے ۔ اقتدار کا کھیل ایسے کھیلا جاتا ہے جس کی وجہ سے تعمیر و ترقی رک جاتی ہے ۔ اچھے حالات کے لیے برے حالات سے سبق سیکھنا لازمی ہے ۔ نوجوان نسل کو مخصوص سمت کی طرف مرکوز کیا جاتا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں بحث و مباحثے ہوتے ہیں تاکہ مثبت سوچ اور مثبت پالیسیوں کو فروغ ملے ۔ 1947 ء میں جو پاکستان ہمیں ملا وہ بدقسمتی سے دولخت ہوا لیکن ہم نے اس بہت بڑے سانحے سے بھی سبق نہیں سیکھاہے۔
یقیناًوزیر اعلیٰ صاحب نے یہاں ملکی سطح کی سیاست کے اُتار چڑھاؤ کی طرف اشارہ دیا ہے ان سے یہ پوچھنا سود مند نہیں ہوگا کہ آخر کار ملکی سطح کی اس سمت کو کون ٹھیک کرے گا کیونکہ وہ خود ایک ایسے خطے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اپنی سمت گزشتہ 70 سالوں سے درست نہیں ہے وفاق میں باری باری سے بیٹھے ہوئے حکمران خواہ وہ عوامی ووٹ کی طاقت سے برسر اقتدار آتے ہوں یا پھر جمہوریت پر شب و خون مارکر قابض ہوتے ہیں وہ سب ہمارے اس خطہ (گلگت بلتستان) کو مملکت پاکستان سے الگ تھلگ ہی تصور کرتے آئے ہیں ۔ حالانکہ ہم نے ڈوگرہ کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد 16 نومبر1947 ء کو غیر مشروط طور پر خود کو مملکت پاکستان سے الحاق کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے پانچویں صوبے کے حق میں قرار داد بھی منظور کی ہے ۔ اگر ملک کے دیگر صوبوں بلوچستان ، سندھ ، خیبر پختونخواہ یا پھر آذاد کشمیر میں دیکھا جائے تو وہاں مملکت پاکستان کے خلاف تحریکیں چل رہی ہیں جبکہ گلگت بلتستا ن میں پاکستان کے خلاف آج تک کسی نے کوئی نعرہ بھی نہیں لگایا ہے بلکہ اس خطے کے قوم پرست بھی جا جا کر پاکستان کے حق میں ہی بات کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود جائز حقوق کا نہ ملنا لمحہ فکریہ ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس خطے کو بے آئین خطہ کہنا جرم تصور کیا جاتا ہے اور آئین پاکستان کے دائرے میں بھی نہیں لاتے ہیں۔ اسی قسم کی دوغلی اور منافقانہ پالیسیوں اور کمزور کو دبانے کی روش نے ہی تو 1971 ء میں ملک کو مشرقی بازو سے محروم کردیا جبکہ مغربی بازو کی سیاسی سمت اب تک درست نہیں ہوسکی ہے جہاں سیاست کے اُتار چڑھاؤ کا کھیل اب تک جاری ہے اور واقعی اس بہت بڑے سانحہ کے باوجود سیاسی اُتار چڑھاؤ کے کھلاڑیوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔
ہم یہاں مملکت پاکستان کے دو عظیم لیڈر محترم ذوالفقار علی بھٹو (شہید) اور سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو یہ کریڈٹ دینا چاہیں گے کہ اُنہوں نے خطہ گلگت بلتستان کو مملکت پاکستان کے آئینی دائرے میں لانے کے لیے کوششیں ضرور کیں ہیں۔ بھٹوصاحب اس خطہ کو پاکستان کا صوبہ بنانے کا اعلان کرنے والے تھے کہ کسی نے انہیں بتایا کہ اقوام متحدہ کے قرارداد کے مطابق آج کل میں کشمیر ایشوز پر رائے شماری ہونے والی ہے تب تک اعلان نہ کریں تاکہ اس خطہ کے عوام کا ووٹ بھی پاکستان کے حق میں پڑے۔ جس کے بعد بھٹو صاحب نے اعلان کو موخر کردیا ۔ بعدازاں بھٹو صاحب کی اقتدار کا دھڑن تختہ کیا گیا ۔ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے
اس خطہ کو آئینی دائرے میں شامل کرنے کے لیے سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں جائزہ کمیٹی تشکیل دی جس کی رپورٹ آنی ابھی باقی تھی کہ انہیں بھی اقتدار سے الگ کردیا گیا اور یوں تیسری مرتبہ وہ اپنی مدت کو پورا کرنے سے قاصر رہے۔ اگر میاں محمد نواز شریف کے چار سالہ دور اقتدار میں ملکی سطح پر دھرنوں اور خلفشار کی سیاست نہ کھیلی جاتی تو شاید ان چار سالوں کے دوران بھی اس خطے کا کوئی نہ کوئی حل نکل سکتا تھا ۔ نتیجہ یہی اخذ ہوتا ہے کہ ہماری ملکی سطح کی سیاست کی سمت درست نہ ہونے کی وجہ سے ہی گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی سمت بھی ٹھیک نہیں ہورہی ہے۔ بہرحال ہمارے نومنتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب کے اس اعلان سے گلگت بلتستان کے عوام میں اُمید کی ایک اور کرن پیدا ہوگئی ہے جس میں اُنہوں نے میاں محمد نواز شریف کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے ۔ ہم اپنے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن صاحب سے بھی یہ اُمید رکھتے ہیں کہ وہ نو منتخب وزیر اعظم کو یہ بتادیں کہ گلگت بلتستان کو آئینی حق دینا بھی سابق وزیر اعظم کی پالیسی تھی اس کو بھی جاری رکھتے ہوئے جائزہ کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے ۔
آخر میں ہم اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہی کرتے ہیں کہ ہمارے لیڈروں اور بیوروکریٹس کو ہدایت دیں کہ وہ ملکی سیاست کی اُتار چڑھاؤ جیسے کھیل کو بند کرکے عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں تاکہ ہم سب کی سمت درست ہونے کے ساتھ ساتھ ملک ترقی کی شاہرا ہ پر گامزن ہو ۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔