ہنزہ نیوز اردو

سرکاری ڈاک بنگلوں میں سیاحوں کے قیام پر پابندی کیوں ؟

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت نے تین سال قبل سیاحوں کی سہولت کے لئے پی ڈبیلو ڈی کے تمام ریسٹ ہاوس سیاحوں کی رہائش کے لئے مختص کرنے کی نوید سنائی تھی مگر تین گزرنے کے باوجود بھی کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی اور ان تین سالوں میں لاکھوں کی تعداد میں سیاحوں نے گلگت بلتستان کا رخ کر دیا اور یہاں آنے والے سیاحوں کو اگر کوئی مسلہ ہے تو وہ ان کی رہائش کا ہے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں کوئی ہوٹل نہ ہونے کی بنا پر یہاں آنے والے سیاح پریشان ہوجاتے ہیں دوسری طرف صوبائی حکومت گلگت بلتستان نے تین سال قبل یہاں موجود محکمہ تعمیرات عامہ کے درجنوں ریسٹ ہاوس سیاحوں کے لئے مختص کرنے کا اعلان کیا تھا مگر اب تک کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی حالانکہ محکمہ تعمیرات عامہ کے کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ان ریسٹ ہاوسز میں زیادہ تر ویران پڑے ہیں مگر وہاں تعینات ملازمین باقاعدگی کے ساتھ اپنی تنخواہ حکومت کے خزانے سے وصول کررہے ہیں اور ہر ضلع میں تعمیر کئے گئے ا ن ریسٹ ہاوس میں یا تو سرکاری ملازمین رہائش اختیار کرتے ہیں یا پھر محکمہ تعمیرات کے بعض سرکاری آفسیران کے رشتہ دار جو اگر سیر سپاٹے کے لئے آتے ہیں تو ان ریسٹ ہاوس میں قیام کرتے ہیں جبکہ حکومت سالانہ ان ریسٹ ہاوسز کے اخراجات کی مد لاکھوں روپے کی ادائیگی کر رہی ہے اگر یہ ریسٹ ہاوس جو ویران پڑے ہیں سیاحوں کے لئے مختص کر دیا جائے تو سالانہ کرایہ کی مد میں ہی کروڑوں روپے حکومت کے خزانے میں جمع ہوسکتے ہیں گلگت بلتستان میں ہر سال سیاحوں کی آمد بڑھتی جارہی ہے گرمیوں کے موسم میں ملکی و غیر ملکی سیاح اس جنت نظیر خطے کو دیکھنے کے لئے ان علاقوں کا رخ کر تے ہیں سیاح ایک طرف تو یہاں کا پر امن ماحول تو دوسری طرف یہاں کے فلک پوش پہاڑ صاف وشفاف پانی یہاں کی خوبصورت جھیلوں پائی جانے والی دنیا کی نایاب مچھلی ٹراوٹ کو دیکھ کرلطف اندوز ہوتے ہیں اور جب واپس اپنے علاقوں کا رخ کرتے ہیں تو اپنے درجنوں دوستوں اور رشتہ داروں کو یہاں کی خوبصورتی کا ذکر کرتے ہیں اس سال اب تک ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ کے قریب ملکی و غیر ملکی سیاحوں نے گلگت بلتستان کا رخ کردیا ہے گلگت بلتستان کو قدرت نے دنیا کی انمول نعمتوں سے یہاں کے عوام کو نوازا ہے جس کو دیکھ کر ملکی و غیر ملکی سیاح بہت زیادہ محظوظ ہوتے ہیں لیکن یہاں آنے والے سیاحوں کو سب سے اہم جو مسلہ درپیش ہیں وہ ان کے لئے رہائش کا انتظام نہ ہونا ہے حالانکہ گلگت بلتستان میں اتنے زیادہ ہوٹل نہیں جہاں پر لاکھوں کی تعداد میں آنے والے سیاحوں کو رہائش مل سکے جبکہ محکمہ ٹورازم کے چند ہوٹل موجوو ہیں جو کہ یہاں آنے والے سیاحوں کی رہائش کے لئے ناکافی ہے دوسری طرف گلگت بلتستان کی حکومت بھی سیاحت کے فروغ کے لئے تاحال خاموش ہے حالانکہ صوبائی حکومت نے پچھلے کئی سالوں سے آنے والے سیاحوں کی تعداد دیکھ کر اگلے سال بہترین انتظامات کرنے کے بلندوبانگ دعوے کئے تھے مگر تاحال سیاحوں کی سہولت کے لئے کوئی ایسااقدام نظر نہیں آیا جس کی تعریف کی جائے خطے میں موجود درجنوں ریسٹ ہاوسسز موجود ہیں یہ ریسٹ ہاوس جو کروڑوں روپے سرکار کے خزانے سے خرچ کر کے بنائے گئے ہیں ان میں سیاحوں کو ٹھراکر کرایہ کی مد میں سالانہ لاکھوں روپے حکومت کے خزانے میں جمع ہوسکتے ہیں گلگت بلتستان میں درجنوں ریسٹ ہاوس موجود ہیں جن سے حکومت کو فائدے کے بجائے سالانہ لاکھوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے ہر ریسٹ ہاوس میں تین سے چار ملازمین تعینات ہیں جو پی ڈبلیو ڈی کے آفسیران اور ان کے رشتہ دار جو کبھی ریسٹ ہاوس قیام کرئے تو ریسٹ ہاوس پہنچ جاتے اور زیادہ تر ریسٹ ہاوس کے ملازمین گھروں میں بیٹھ کر تنخواہ وصول کرتے ہیں اگر کوئی پرائیوٹ سیاح ریسٹ ہاوس میں قیام کے لئے جائے تو ان کو یہ کہہ کر واپس کیا جاتا ہے کہ یہ ریسٹ ہاوس سرکاری آفسیران کے لئے ہے جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بعض ریسٹ ہاوس میں پی ڈبیلوڈی کے بعض آفسیران قیام کرتے ہیں مگر کرایہ کی مد میں حکومت کو ایک آنہ بھی نہیں دیتے اس حوالے سے اگر حکومت چاہے تو یہ ریسٹ ہاوس میں سیاحوں کے قیام کی اجازت دے سکتی ہے اس سے سالانہ حکومت کولاکھوں روپے کا آمدنی بھی ہوسکتی ہے حالانکہ صوبائی حکومت نے تین سال قبل گلگت بلتستان میں جتنے بھی سرکاری ریسٹ ہاوسز ہیں ان کو پرائیویٹائز کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس حوالے سے تین سال گزر گئے حکومت کے اس اعلان پر عملی طور پر کوئی کام نہیں ہوا اگر یہ سرکاری ریسٹ ہاوسز غیر ملکی سیاحوں کے لئے ہی مختص کیا جائے تو سالانہ حکومت کو اچھی خاصی امدنی مل سکتی ہے دوسری طرف محکمہ واسا اور بی اینڈار ڈوثرن کے پاس ویسے بھی ملازمین کی کمی نہیں ان ریسٹ ہاوسز کو چلانے کے لئے تھوک کے حساب سے بھر تی کئے گئے ہیں ان کو گھروں میں رکھ کر تنخواہ دینے کی بجائے اگر ان ملازمین سے ڈیوٹی لی جائے تو اس سے علاقے میں سیاحت کو مزید فروغ حاصل ہوسکتا ہے حالانکہ ملک کے دیگر تمام صوبوں کے ریسٹ ہاوسسز سیاحوں اور عام پبلک کے لئے مختص کر دئیے گئے ہیں مگر گلگت بلتستان میں موجود ان ریسٹ ہاوسسز میں تاحال سیاحوں کی بجائے بعض سرکاری آفسیران براجمان ہیں جبکہ محکمہ سیاحت کے بڑے ہر سال بلند بانگ دعوے کرتے ہیں کہ اگلے سال سیاحت میں بڑی تبدیلی لائی جائیگی مگر دیکھا جائے تو عملی طور پر سیاحت کے فروغ کے لئے کوئی سنجیدگی سے کام کرنے والا نظر نہیں آتاگلگت بلتستان کو سی پیک کی وجہ سے ایک اہم مقام حاصل ہوگیا ہے تو دوسری طرف سالانہ آنے والے لاکھوں سیاحوں کی وجہ سے پوری دنیا میں اس خطے کی ایک پہچان بن گئی ہے اب اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہم سب کی زمہ داری ہے یہاں آنے والے سیاحوں کی مشکلات کے حل کے لئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کر نا ہوگا ملک کے دیگر صوبوں کے تمام ریسٹ ہاوسسز اگر سیاحوں کے لئے کھول دیا گئے ہیں تو گلگت بلتستان میں موجود ریسٹ ہاوسسز کے دروازے سیاحوں کے لئے بند کیوں؟؟؟ اس حوالے وزیر اعلی گلگت بلتستان گزارش ہیں کہ گلگت بلتستان میں موجود تمام سرکاری ریسٹ ہاوسسز میں سیاحوں کی قیام کی منظوری احکامات جاری کریں تاکہ یہاں آنے والے سیاحوں کو رہائش کے حوالے سے جو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں کچھ کمی آسکے،،،

مزید دریافت کریں۔