ہنزہ نیوز اردو

روحِ عصر اور عورت کی مقید روح

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/06/19399870_10155307250185340_6624222151346298157_n.jpg” ] میمونہ عباس خان[/author]

انسانی تاریخ کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ عورت کا جسمانی وجود ہر معاشرے میں موجود رہا مگر اس کی ذات کبھی تسلیم نہیں کی گئی۔ یہ عورت کا جسمانی وجود ہی ہے جس کی خاطر یونانی دیوتا کبھی ایک دوسرے سے لڑ پڑے تو کبھی ہیلن آف ٹرائے جیسی حسین عورت کے حصول کی خاطر ہزاروں کشتیوں کو جنگ میں ایسے اتارا  کہ ٹرائے جیسی عظیم الشان تہذیب کا نام و نشان تک مٹا کے رکھ دیا۔ یہی عورت انار کلی بنی تو محبت کرنے کی پاداش میں دیوار میں زندہ چنوادی گئی تو کہیں یہی عورت شاہوں کے حرم آباد کرنے والی داشتہ بن گئی۔ عورت سدا ہی مرد کے ہاتھوں اس لیےکٹھ پتلی بنی رہی کہ اس کی اپنی ذات کا مردوں کے مروجہ نظامِ طاقت میں کوئی کردار نہیں تھا۔ عورت پر ہونے والے ظلم اور جبر پر مبنی یہ نوحہ صرف چند صدیوں کا نہیں ہے بلکہ متعدد ہزاریوں کا ایک طویل رزمیہ ہے۔ اور اس تحریر کا مقصد بھی ان عوامل، کرداروں اور اقدار کی نقد کرنا ہے جو عورت کو نہ صرف جسمانی طور پر محکوم بنانا چاہتے ہیں بلکہ فکری طور پر اسے مفلوج اور روحانی طور پر کرب میں مبتلا رکھتے ہیں۔

 آج گلگت بلتستان کا معاشرہ جس معاشرتی تبدیلی سےگزر رہا ہے اس میں ناخواندہ خواتین تو کجا، خواندہ خواتین کو بھی اپنی شخصیت کی تشکیل کرنے میں اکثرناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ پدرسری ذہنی تشکیلات ہیں جو ایک خاص ذرعی اور قبائلی تناظر میں ابھرے جنہیں جدید زمانے اور افکار کو جاننے اور جانچنے کے لیے اب بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ یوں بحیثیت مجموعی پورا معاشرہ ہی غلط زمانی کا شکار ہو گیا ہے۔ علمِ نفسیات کی زبان میں ایسے معاشرے کے ذہن کو دوگونی قرار دیا جاتا ہے جو بنیادی طور پر ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ یوں یہ دعوٰی کیا جا سکتا ہے کہ آج کا ہمارا معاشرہ ذہنی لحاظ سے صحت مند معاشرہ نہیں ہے اور یہی غلط زمانی و دوگونی ذہنیت ہی خواتین کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہے جس کی رو سے روایات کے مُردوں کو جدید معاشرے میں زندہ رکھا جارہا ہے اور یہی متروک ذہنیت ہی خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے، خودکشی جیسے حرام اور بزدلانہ اقدام اٹھانے پر مجبور کرنے، ان پر تشدد کرنے اور استحصال کا باعث بن رہی ہے۔

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ایک مہذب معاشرے کو توازن میں رکھنے والے دوبڑے فریق یعنی کہ مرد اور عورت کی آپس میں ٹھنی ہوئی ہے بلکہ یہ ہے کہ حقوق کی جائز اور منصفانہ تقسیم کو لے کر جانے کب سے مسلسل ایک جنگ کی کیفیت طاری ہے جس کا فی الحال دور دور تک کوئی انجام دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اس سارے معاملے میں عورت ہی خسارے میں ہے۔ کیونکہ پدرسری معاشرے کی پوری معشیت، اخلاقیات، مذہب اور ریاست مردوں کے بیانیے کو تقویت دینے کے لیے موجود ہے جبکہ عورت  کی حیثیت اس میں ایک محکوم شے سے زیادہ نہیں ہے جس کی اپنی ذات کا کوئی وجود نہیں۔ یہی پدرسری ذہنیت عورت پر جسمانی اور نفسیاتی تشدد کے ذریعے اپنے آپ کو آشکار کرتی ہے۔

 ایسے معاشرے جن کی معاشرتی اور اخلاقی اقدار کی عمارت خوف کی بنیادوں پر استوار ہوں وہاں ہر چیز کو اسی خوف کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مرد کو ذاتی طور پر مذہب سے بے شک لگاؤ نہ ہو لیکن عورت کے معاملے میں مذہب کی تعلیمات کو ضرور دہراتا ہے اور موقع محل کی مناسبت سے آیات و احادیث کو ایسے انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ عورت نہ تو اپنے حق کے لیے آواز بلند کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنے کرب کا اظہار کرسکتی ہے۔ خصوصاً ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے معاملے میں مردوں میں مذہب کو بطور ہتھیار عورتوں کے خلاف استعمال کرنے کا گویا رواج سا چل پڑا ہے۔ جب کہ یہی مرد عورت کی اپنی پسند سے شادی کرنے پر چراغ پا اور اس کی جان کے درپے ہوتا ہے۔ اور پھر ایسے معاملات میں مذہب کی تعلیمات سے منکر بھی ہوجاتا ہے۔ یہ مرد کی استحصالانہ سوچ  ہے نہ کہ عورتوں کی فطری کمزوری، جو قرآن کریم جیسی آفاقی اور عظیم کتاب کے پیغام کو اپنے مطالب پورے کرنے کے لیے عورت کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے یہی پدرسری معاشرہ، عورت کو مذہب تک سے جلاوطن کردیتا ہے جو کہ قانونِ قدرت کے سراسر خلاف ہے۔

ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ برائے نام خودمختار عورتیں اکثر ہی تعلیم یافتہ، سمجھدار اور مناسب معاشی و معاشرتی مقام پر فائز ہونے کے باوجود اپنے جائز حقوق سے نظریں چرائے بےبہرہ بنی، معاشرے کو مطمئن کرنے میں کوشاں، اپنے آپ کو اور اپنی ذات سے جڑی کئی زندگیوں کو اذیت کے جہنم میں دھکیل دیتی ہیں۔ ایسی عورت اُس معاشرتی سوچ کی تجسیم ہے جس کے مطابق عورت کی پیدائش کا اصل مقصد مرد کی جی حضوری کرنا ہے جس میں عورت کو غلطی کرنےکی کوئی گنجائش نہیں دی گئی۔ یوں عورت اپنی عملی زندگی کا آغاز اپنی ذات کی نفی کر کے کرتی ہے۔ اور پدرشاہی ثقافتی بیانیے پر اپنے آپ کو اکثر قربان کر دیتی ہے۔ اگرچہ اس عمل کو معاشرہ سمجھوتے کا نام دیتا ہے مگر حقیقت میں عورت اپنا نفسیاتی توازن بگاڑ رہی ہوتی ہے۔ ایسی غیر متوازن شخصیت صرف عورت کو ہی نہیں بلکہ اس کے بچوں کو بھی منفی انداز میں متاثر کرتی ہے۔ کیونکہ بچے اسی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور اسی کی تربیت میں پل رہے ہوتے ہیں۔ اگر ماں ہی ذہنی و جذباتی طور پر صحت مند نہ ہو تو یقیناً اس کا خمیازہ بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔  ایسی مائیں اپنے جن بچوں کے لیے قربانی دینے کا دعوٰی کرتی ہیں درحقیقت وہی بچے اپنی ماں کی ذات کی شکست وریخت کا نہ صرف شکار ہوتے ہیں بلکہ اپنی آنے والی زندگیوں میں غیر متوازن اور نفسیاتی طور پر منتشر شخصیات بن کر ابھرتے ہیں۔ ایسے بچے زندگی بھر رشتوں سے خوفزدہ رہتے ہیں یا پھر ان کی اہمیت سے ہی مکر جاتے ہیں۔ اسی صورتِ حال کو میلان کندرا نے اپنے مشہور ناول ”The Unbearable Lightness of Being“ میں نہایت خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار ایک ہی عمل کولاشعوری طور پر چکری تاریخ کے جبر کے طور پر دہراتے نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ لڑکا ہو یا لڑکی، وہ اپنے آنے والی زندگیوں میں خود کو اپنے والدین کی جگہ محسوس کرتے ہیں اور وہی کہانی کچھ ہی عشروں کے فرق سے بدلے ہوئے کرداروں کے ساتھ اپنے آپ کو پھر سے دہرانے لگتی ہے۔

 خواتین کے حقوق پر بات کرنے کا مقصد نہ صرف معاشرے کی مذموم روایات سے بغاوت کرنا ہے بلکہ پورے معاشرے کو اُس چکری تاریخ(Cyclical History) سے بھی آزاد کرانا ہے جس کے چکر میں قبائلی اور روایتی معاشرے ہمیشہ سے پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جوہمیں اپنے اطراف میں نظر آتی ہیں جہاں عورت معاشرتی دباؤ سے بچنے اور اپنے خاندان کو سُبکی سے بچانے کی خاطر جبر بھری زندگی کا انتخاب کرتی ہے۔ یہ بھی اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ عورت کماتی ہے، گھر چلاتی ہے اور بچے بھی پالتی ہے مگر اپنی ذات کو ہر لمحے کسی اور کے مقاصد اور خواہشوں کی خاطر کچل دیتی ہے۔ یوں اپنی ذات کی پے درپے شکست وریخت کے بعد عورت کے لیے دنیا زندان بن جاتی ہے۔ جب اس کی زندگی میں اس کی اپنی ذات کی روشنی نہیں رہتی تو زندگی کے خاتمے کو ہی وہ نجات کا ذریعہ بنا لیتی ہے۔ پدرسری معاشرے کی اسی گھٹن کا شاخسانہ ہے کہ گلگت بلتستان میں خواتین کی خودکشیوں کا تناسب دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اور اس کا ایک بڑا سبب یہی پدر سری معاشرہ ہے جس نے عورت کی زندگی میں آنے والی روشنی کا ہر روزن بند کر رکھا ہے اور عزت، ناموس اور تحفظ کے نام پر اسے زندان میں ڈال دیا ہے۔ عورت کو غیرت کے نام پر قتل کر کے مرد فخر سے سینہ تان کر چلتا ہے جب کہ اسے اپنے لیے اپنی مرضی کی زندگی جینے کی مکمل آذادی ہے۔ مرد موت بانٹ کر بھی سرخرو ہوجاتا ہے اور عورت خوف اور اذیت کو اس اندھے، بہرے اور گونگے معاشرے سے چھپانے میں بے حال اور ادھ موئی ہو جاتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت کی یہ بے بسی اس فطری جبلت کا تقاضا ہے یا یہ ایک سوچی سمجھی معاشرتی تشکیل ہے جو پدرسری معاشرے کے اقدار کو زندہ رکھنے کے لیے مرد نے اخلاقیات، رشتوں کی زنجیروں اور معاشرتی اداروں کے روپ میں زندہ رکھا ہے۔ اس سوال کا جواب پانے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پدرسری معاشرے میں مروج اس بیانیے کی ردِ تشکیل کی جائے جو دلوں اور دماغوں کو بقول روسو غیر مرئی زنجیروں میں جکڑے رکھتا ہے۔ عورت کی جسمانی غلامی دراصل اس کی ذہنی غلامی سے پھوٹتی ہے۔ اسی لیے معاشرے میں غالب بیانیے کی ردِ تشکیل اس لیے بھی لازمی ہے کہ یہ عورتوں کی صدیوں سے دبی ہوئی آوازوں کو ایک منظّم اور پدرسری سوچ سے آزاد نظریے کی صورت میں ڈھال سکتا ہے۔ تب کہیں جاکر عورت اپنے گلے، روح اور دماغ  پر پڑے طوقِ غلامی کو اتار پھینکنے کے قابل ہو سکے گی۔ اسی سے ہی وہ سیاسی لائحہِ عمل بھی طے پائے گا جو مرد کے بیانیے کو خاندان، ازدواجی زندگی، مذہب، سیاست، ریاست اور اقدار کے میدان میں چیلنج کرے گا۔ اس کے بعد ہی وہ روایتی اقدار اپنے معنی کھو دیں گے جسے مردوں نے اپنی منافقت کو چھپانے کے لیے ذاتی اور پبلک کی دوئی پیدا کی ہے۔ یوں عورت کی اس نئی سوچ میں اب کوئی چیز ذاتی نہیں رہے گی بلکہ ذاتی معاملہ بھی پبلک ہوگا جیسا کہ نسائی تحریک کا دعوٰی ہے ”Private is public۔ “

 اس دوئی کے خاتمے بعد معاشرتی spaces اور شخصیات غائب ہوجائیں گے جو پبلک میں روشن خیالی کے معمار بنے ہوئے ہیں جبکہ انہوں نے اپنے ہی گھر کو عورت کے لیے زندان بنایا ہوا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ عورت اپنے ہی گھر کی چاردیواری میں غیر محفوظ اور اجنبی ٹھہرائی گئی ہے۔ اسے یہ حق تک نہیں دیا جاتا کہ وہ اپنی مرضی کا لباس ذیب تن کرے یا اپنی خوشی سے کہیں آ جا سکے۔ اس کی ان دیکھی اذیت دنیا کی نظر سے پوشیدہ رہتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس کی روحانی کرب کی ان سنی چیخوں کو بھی اسی چاردیواری نے دبا رکھا ہے۔ چاردیواری اور چادر کا یہ تصور عورت کے تحفظ کی خاطر نہیں بلکہ مرد کی منافقت پر پردہ ڈالنے کی ایک شعوری کاوش ہے۔ اگر عورت اپنی ذات کی نفی ہوتے دیکھ کر اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کرے تو اسے ہمیشہ کے لیے دبا دیا جاتا ہے۔ اور سونے پہ سہاگہ ایسی عورت معاشرے کی نظر میں اول درجے کی ناشکری ٹھہرائی جاتی ہے۔ جیسا کہ اس نظم میں ایسی ہی ایک عورت کا درد بیان کیا گیا ہے۔

ناشکری عورت
حقوقِ نسواں کا وہ جو علمبردار بیٹھا ہے
کوئی پوچھے ذرا اس سے
جو پہلو میں ہے اس کے
چہرے پر اک جھوٹی سی مسکان سجائے
حزن کیوں ہے اُس کی آنکھوں میں؟
اور اُس کے مرمریں بازو پہ نیلے داغ کیسے ہیں؟
اُسے میک اپ کی حاجت تو نہیں ہے
پھر بھی اتنا غازہ اُس نے اپنے چہرے پر مَلا کیوں ہے؟

چھپانا چاہتی ہے داغ کوئی؟
یا گری ہوگی کسی سیڑھی سے
یا پھر!
کام کرتے کرتے چکر آگیا ہوگا
نہیں! وہ بے دھیانی میں کسی الماری سے ٹکرا گئی ہوگی
تبھی تو جھانکتے ہیں نیل بازو سے

خیال اپنا نہیں رکھتی
تبھی حلقے ہیں گہرے، آنکھوں کے نیچے
ہزاروں بار سمجھایا گیا ہوگا
واقعی!
ایسا ہوا ہوگا

بڑی لاپرواہ عورت ہے
ذرا بھی دھیان نہیں رکھتی
مگر!
چلو چھوڑو ہمیں کیا
ذرا تقریر سن لو اُس کے ہمدم کی
بڑا دلکش لب و لہجہ ہے
اور روشن خیالی بھی ہے زوروں پر
یقیناَ
الم اور حزن کا پیکر بنی
چپ سادھے جو بیٹھی ہے
وہ ناشکری عورت ہے!
(از: میمونہ عباس خان)

اس صورتِ حال میں دانشوروں اور مفکروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس چاردیواری کے اندر مقید سسکیوں اور آہوں کو ایک ایسی واضح آواز میں ڈھالنے کی کوشش کریں جس کی قوت کے آگے مردوں کے بیان کردہ مردہ روایات و اخلاقیات اور ظلم و ستم کے کوہِ گراں روئی کے گالوں کی مانند اڑکر ہواؤں میں تحلیل ہوں۔ کارل مارکس نے اسی لیے تو کہا تھا کہ ”All that is solid melts into air۔ “

اس تحریر کا مقصد عورتوں کو رشتوں کا تقدس پامال کرنے کی ترغیب دینا ہر گز نہیں ہے بلکہ رشتوں کو برتنے میں مساوات اور برابری کو اولین ترجیح دینے کا شعور دینا ہے۔ اور انہیں یہی پیغام دینا ہے کہ پدرسری معاشرے نے اپنے مردہ روایات کے تحفظ اور ناموس کو صرف عورت سے اس طرح منسوب کر رکھا ہے کہ وہ صدیوں سے اپنی جان تک گنوا کر ان لاشوں کی رکھوالی کرتی چلی آئی ہے۔ دوسری طرف مرد اپنی زندگی کے ہر معاملے میں خود مختار ہے جس کا فائدہ وہ یوں اٹھاتا ہے کہ وہ زمین پر خدا بن بیٹھا ہے۔

مگر یہ بھی سچ ہے کہ روایات کی یہ دیوار جدیدیت اور مابعد الجدیدیت کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ تب ہی ترقی کر سکتا ہے جب ہماری سوچ بدلے گی اور اسی جدیدیت کے روحِ عصر کو ہم اپنے ذہن اور روح میں سمالیں جو ہمیں اس قابل بنائے گا کہ ہم دقیانوسی روایات کے چکر سے آزاد ہو کر جدیدیت کی راہ پر گامزن ہوں گے۔ تبھی ہمارا معاشرہ غلط زمانی سے بھی بچ جائے گا اور عورت بھی اس قابل ہوجائے گی کہ آپ اپنی آواز بن سکے نہ کہ کسی سے مستعار لی ہوئی آواز کو لاٹھی بنا لے۔

’ہم سب‘

مزید دریافت کریں۔