ہنزہ نیوز اردو

راولپنڈی میں ہاؤسنگ سوسائٹی کے نام پر گلگت بلتستان کی تاریخ کا 15 ارب سے ذیادہ مالیاتی سیکنڈل منظر عام ۔

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2018/04/30707343_203833560221881_2603410597022269440_n-2.jpg” ]محبوب خیام [/author]

اسلام آباد(تحقیقاتی رپورٹ ،محبوب خیام سے ) ہاﺅسنگ سوسائٹی کے نام پر گلگت بلتستان کی تاریخ کا 15 ارب روپے کا سب سے بڑا مالیاتی فراڈ سیکنڈل منظر عام پر ا ٓگیا ۔ زمینوں کی خریداری اور ترقیاتی عمل کے نام پر گلگت ،غذر، ہنزہ اور چترال کے سینکڑوں خاندانوں کے جیبوں پر ڈاکہ ڈالا گیا 2007 سے اب تک گولڈن جوبلی کوآپریٹیو ہاﺅسنگ سوسائٹی کے انتظامی امور چلانے والی کمیٹیاں ایک دوسرے کی لوٹ کھسوٹ پر پردہ ڈالتی رہیں، لیکن ڈسٹرکٹ آفیسر کوآپریٹیو ز اٹک نے اپنے تحقیقاتی رپورٹ میں سوسائٹی میں ہونے والی میگا مالی کرپشن اور اس میں ملوث کردار وں کو بے نقاب کردیا۔ واضح رہے کہ گلگت ،غذر ،ہنزہ اور چترال کے چند بیورکریٹس اور کاروباری حلقوں نے جو راولپنڈی اور اسلام آباد میں مقیم تھے 1988 میں ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو رہائش کے حوالے سے در پیش مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے گولڈن جوبلی ہاوسنگ سوسائٹی کا قیام عمل میں لاکر اسے باقاعدہ رجسٹرار کوپریٹیو سوسائٹیز سے رجسٹرڈ کروایا ۔ اس ہاﺅسنگ سوسائٹی کا بنیادی مقصد مندرجہ بالا علاقوں سے تعلق رکھنے والے اسماعیلی برداری کے لوگوں کو رہائشی پلاٹس فراہم کرنا تھا ابتدا میں سوسائٹی کے ممبران کی تعداد 13 تھی۔ جو اب بڑھ کر 425 ہوچکی ہے ۔ 351 ممبران کو رہائشی پلاٹس دئیے جاچکے ہیں۔ اور 75 ممبران کے پاس کمرشل دکانے اور فلیٹس ہیں۔ سوسائٹی کے قیام کے فوراً بعد غلط فہمیوں اور شکایات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ سوسائٹی کی مختلف ادوار میں انتظامی امور چلانے والی کمیٹیاں باہم دست گریباں ہیں۔ سوسائٹی کے بعض ممبران منجمنٹ کے خلاف تھانوں میں اور بعض عدالتوں میں دھکے کھارہے ہیں۔ لیکن سوسائٹی کے سابق اور موجودہ ذمہ داران ممبران کے ان قانونی مسائل حل کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے جرائم پر پردہ ڈالنے میں مصروف ہیں۔ سوسائٹی کے حوالے سے ملنے والی سنگین نوعیت کی شکایات پر رجسٹرار کوآپریٹیو سوسائٹیزنے 2016 میں محمد اشفاق شاہد ڈسٹرکٹ آفیسر کوپریٹیو ز اٹک کو حکم دیا کہ وہ سوسائٹی میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں کے حوالے سے تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کریں جس پر تحقیقاتی آفیسر نے سوسائٹی کے تمام مالی و انتظامی پہلوﺅں کا جائزہ لینے کے بعد 23 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ رجسٹرار کوپریٹیو ز سوسائٹیز کو پیش کی۔ لیکن دو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس رپورٹ میں جن بے ضابطگیوں اور مالی کرپشن کی نشاندہی کی گئی تھی اب تک کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی ہے ۔ مستند ذرائع کے مطابق اس رپورٹ پر عملدرآمد روکوانے کے لئے سابق صدر سوسائٹی نہر علی اور اس کے ساتھ مینجنگ کمیٹی میں شامل عہدیداروں نے غیر قانونی ذرائع استعمال کئے۔ تحقیقاتی آفیسر نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 1988 سے 2006 تک قواعدو ضوابط کے مطابق منیجنگ کمیٹی کے کبھی انتخابات کروائے گئے۔ اس عرصے کے دوران ممبران کے گروپ نے منیجنگ کمیٹی کے فرائض انجام دئیے۔ جو کہ سوسائٹی کے طریقہ کار اور الیکشن قوانین کی کھلم کھلا اور سنگین خلاف ورزی ہے 2004 سے پہلے نہ الیکشن قوانین اپنائے اور نہ ہی بائی لاز کا کوئی طریقہ کار اپنایا ۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ 291 کنال اراضی سوسائٹی کی ملکیت ہے267 کنال اراضی اس وقت کے منیجنگ کمیٹی کے سربراہ امان اللہ نے خریدی باقی ماندہ 24کنال زمین 2007 اور 2013 کے درمیان اس وقت کے صدر اشرف امان اور نہر علی کے دور میں خریدا گیا ۔ منیجمنٹ کی غلطیوں اور چند غلط فہمیوں کی وجہ سے سوسائٹی کو عدالتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا اس صورتحال نے سوسائٹی کے مختلف گروپوں کے مابین اختلافات پیدا کروا دئیے۔ سوسائٹی کے شروع منیجمنٹ جس میں امان اللہ اور نہر علی تھے زمین کی خریداری کے وقت تتمیہ کے حصول کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ جس کی وجہ سے سوسائٹی کی اراضی پر ناجائز قبضہ اور ایک دوسرے کے خلاف کاروائی کے لئے عدالتی دروازے کھل گئے۔ اشرف امان اور نہر علی کے غیر قانونی فیصلوں کی وجہ سے سوسائٹی کی زمین کو سخت نقصان پہنچا رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ سوسائٹی کے قیام کے وقت ممبران نے کوئی مقامی نہیں تھا۔ جو اس پہاڑی زمین کے قبضے سے متعلق تجربہ رکھتا ہو یہی وجہ ہے کہ سوسائٹی21 سال بعد بھی ماسٹر پلان کا اعلان نہیں کرسکی۔ پہلا ماسٹرپلان عارضی طورپر 2009 میں آر ڈی اے نے منظور کیا تھا لیکن بدقسمتی سے سوسائٹی پر قابض بعض مجرمانہ ذہنیت کے حامل گروپوں کی سازشوں کے باعث سوسائیٹی کے 53 کنال زمین میں فراڈ کیا گیا ۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈھلوان پر بننے اس ہاﺅسنگ سوسائٹی کو رہائش کے قابل بنانے کے لئے جس تعمیراتی کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ وہ کمپنی دراصل اس وقت کے صدر نہر علی اور منجمنٹ کے دیگر ارکان کی ملکیت تھیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوسائٹی میں اس کمپنی کے ذریعے جو بھی ترقیاتی کام ہوا ہے وہ انتہائی غیر معیاری ہے ۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ترقیاتی عمل کا دوبارہ جائزہ لینے کے لئے کسی غیر جانبدار کمپنی جیسا کہ نیسپاک ہے کہ خدمات حاصل کی جائے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ غیر معیاری ترقیاتی عمل کے عوض کمپنی کو نہ صرف کروڑوں روپے ادا کئے گئے بلکہ قواعدو ضوابط کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے کمپنی کو نقد ادائیگی کے بجائے پلاٹس بھی دے دئیے گئے ۔ جو کہ قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ جہاں سوسائٹی کے لئے زمین خریدی گئی ہے وہ نا ہموار ڈھلوان پر واقع ہے غیر معیاری ترقیاتی عمل کے باعث یہاں تعمیر کئے گئے رہائشی مکانوں اور مکینوں کی بقاءخطرے میں ہے کیونکہ یہ علاقہ زلزلوں کے زون میں آتا ہے تحقیقاتی آفیسر نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ سوسائٹی کے ساتھ جوڑی ہوئی پانچ کنال اراضی جو کہ عبدالخالق نامی شخص کی ملکیت تھیں سابق صدر نہر علی نے سوسائٹی کے لئے خریدی ۔ لیکن ادائیگی کے حوالے سے سوسائٹی کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ جن لوگوں نے پیشگی ادائیگی کی ہے ان کے خلاف سیکشن 50 A, اور 44 ،B آف کوآپریٹیو سوسائیٹز ایکٹ 1925 کے تحت قانونی کاروائی عمل میں لایا جائے۔ سفارشات میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام انتظامی کمیٹیوں جو کہ 1988 تا 2004 اور 2008 تا2011 تک جن سربراہان کے ادوار نے زمین خریدی گئی ہے ان سودوں میں سنگین بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔ لہذا ان بے ضابطگیوں میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جائے دریں اثناءذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ کسی بھی سوسائٹی کے قیام کے لئے حکومت کی طرف سے چند شرائط لاگو ہوتے ہیں جن کے تحت سوسائٹی میں گرین بلٹ ،قبرستان اور معیاری سٹرکوں کے علاوہ عبادگاہوں کے لئے اراضی فراہم کر نا سوسائٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ لیکن گولڈن جوبلی ہاﺅسنگ سوسائٹی میں ان تمام شرائط کو پس و پشت ڈال دئیے گئے ہیں۔ سوسائٹی ہذا میں نہ قبروستان کے لئے جگہ مختص کی گئی ہے اور نہ ہی گرین بلٹ کا وجود ہے جب کہ عبادت گاہ کے لئے مختص اراضی میں بھی سنگین بے ضابطگی سامنے آئی ہے ۔ قانون کے مطابق کسی بھی سوسائٹی میں سٹرکوں کی چوڑائی 40 فٹ ہوتی ہے مذکورہ سوسائٹی میں 30 فٹ کے سڑکیں بنائی گئی ہے جب کہ 10 فٹ زمین کے پلاٹس بناکر مبینہ طورپر فروخت کئے گئے ہیں۔ انتظامی معاملات چلانے والی کمیٹیوں نے سوسائٹی میں ہونےو الے ان گھپلوں میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنے کے بجائے ان کے جرائم پر پردہ ڈالنے میں مصروف ہے اور جو بھی ممبر ان بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرتا ہے اس کی ممبر شپ منسوخ کی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف سابق صدر نہر علی کے دور میں کئی پلاٹس متعدد بار فروخت کئے گئے اس کی وجہ سے سوسائٹی میں جھگڑے روزانہ کا معمول بن چکے ہیں۔ اور ایک پلاٹ کے کئی کئی دعوے دار ہیں ان میں سے بعض تھانوں میں اور بعض عدلتوں میں دھکے کھارہے ہیں اس صورتحال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے غیر معیاری ترقیاتی عمل کے باعث سوسائٹی میں رہائش پذیر درجنوں خاندانوں کی جانیں غیر محفوظ ہوکر رہ گئی ہیں ۔ذرائع کے مطابق زمین کی ناہمواری اور غیر معیاری ترقیاتی عمل کے باعث بیشتر رہائشی مکانوں میں دراڑیں پڑ چکی ہے اور کسی بھی وقت کوئی بڑا انسانی المیہ رونماءہوسکتا ہے ذرائع نے بتایا کہ سابق صدر نہر علی جو اس مالیاتی سیکنڈل کا مرکزی کردار ہے نے سوسائٹی کی لوٹی ہوئی اس رقم سے اپنا ذاتی ہاﺅسنگ سوسائٹی بنائی ہے ان خبروں کے منظر عام پر آنے کے بعد خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ موصوف کسی بھی وقت بیرون ملک فرار ہوسکتا ہے متاثرہ سوسائٹی کے ممبران نے پہلے ہی قومی احتساب بیورو میں دئرخواست دے چکے ہیں۔ متاثرہ ممبران نے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور قومی احتساب بیورو سے اپیل کی ہے کہ وہ اس میگا مالیاتی سیکنڈل کا نوٹس لیتے ہوئے مرکزی کردار نہر علی کا نام ای سی ایل میں ڈال کر تحقیقات کا حکم دے ۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ