ہنزہ نیوز اردو

دیامر کے لیے بھیک

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

ٹائٹل: ریڈکراس

آج یہ چند سطریں بادل نخواستہ لکھ رہا ہوں۔مجھے اکثر یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ میں دیامر پرست ہوں۔دیامر میرا گھر ہے اور گلگت بلتستان کا گیٹ وے۔ اگر دیامر جل رہا ہے اور میں اس آگ میں کمی کی بات کرتا ہوں تو کیا غلط کرتا ہوں؟ یقیناًنہیں۔ گلگت بلتستان کے ہر بہن بھائی سے یہی عرض کرونگا کہ ’’ دیامر خوشحال گلگت بلتستان خوشحال‘‘۔ دیامر کے چبے چبے میں گھوم پھرنے اور جائزہ لینے کا بعد اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں کہ دیامر کی بربادی میں سب سے زیادہ ہاتھ لوکل گورنمنٹ کا ہے۔اربوں روپیہ کے پروجیکٹ بے یارو مدد گار چھوڑ دیے گئے ہیں اور ٹھیکیداران کب کا رقم ہضم کرچکے ہیں۔ دیامراس وقت گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ضلع ہے مگر انتہائی خستگی کے عالم میں سسک رہا ہے۔ پورے دیامر کو چھوڑئیے۔ صر ف چلاس سٹی کا جائزہ لے لیا جائے تو بھی دل خون کے آنسو روتا ہے۔ چیف انجینئر، ڈسی سی، ایس پی، ججز اور دیگر اعلیٰ آفیسران کے دفاتر کے سامنے والی روڈ اور گٹرکے پانی کی نالی بھی درست حالت میں نہیں۔ان کے دفاتر کے سامنے والی روڈ پر گندہ پانی چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے۔ اگر آپ دیامر کے مضافاتی گاؤں کا دورہ کریں گے تو حیرت ہوگی کہ سرکار نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئے گی۔اگر کوئی صاحب دل پولو گروانڈ چلاس، ہائی اسکول چلاس کا گروانڈ، ائیرپورٹ اور تین میل پر مشتمل کے کے ایچ سے چلاس بازار تک کے روڈ کا بھی جائزہ لے گا تو وہ کسی صورت اس کو شہر نہیں کہہ سکے گا۔گندا پانی اور کوڑا کرکٹ کا ڈھیر کے سوا آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔ صفائی نام کی کوئی چیز آپ کو انتظامیہ کی طرف سے چلاس کے چھوٹے سے شہر میں نہیں ملے گی۔
دیامر کے لوگوں کو گنوار اور ہٹ دھڑم بنانے میں کسی کا کردار ہو نہ ہو سرکار کا ضرور ہے۔دیامر کاتعلیمی اسٹریکچر تباہی کے آخری دھانے پر کھڑا ہے۔ این جی اوز بھی کاغذات کی حد تک دیامر میں اپنی کارکردگی اپنے ڈونرز کو پیش کرتے ہیں عملاً ان کی کوئی خدمات دیامر میں نہیں۔ ایک بھی ادارہ نہیں جو لوگوں کو شعور و آگاہی دے۔ عامۃ الناس کو جدید دور کے تقاضوں اور ضروریات سے آگاہ کرے۔ڈیم کی مد میں بے تحاشا رقم اہلیان دیامر کو موصول ہوئی مگر اس کے استعمال کرنے کا انہیں کوئی شعور ہی نہیں۔کوئی عالم، کوئی اسکالر، کوئی پروفیسر، کوئی آفیسر کوئی سماجی ورکر انہیں گائیڈ لائن دینے کے لیے تیار ہیں نہیں۔ لازمی طور پر لوگ اخلاقی طور پر تنزلی کا شکار ہیں۔ اس بے تحاشا رقم سے دیامر میں ایک بھی فلاحی اور سماجی ادارہ قائم نہیں ہورہا ہے بلکہ بھائی بھائی کا دشمن بن چکا ہے۔اکثر رقم کسی کے اکاونٹ میں جمع ہوچکی ہے۔لوگ اس کے استعمال کرنے سے قاصر ہیں۔ داریل تانگیر والوں کو ایک طے شدہ پلان کے تحت ظالم اور خونخوار ڈکلیئر کروایا گیا ہے۔ وہ ہزار چاہیے بھی تو سالوں تک اپنا امیج بحال نہیں کرسکتے۔اتنے ملنسار اور مہمان نواز اور انسانیت دوست لوگوں کوقاتل اور سماج کا بدنما داغ گرداننے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ کوئی اچھا کام نہیں کررہے۔اور اس پر مستزاد ہمارا میڈیا تیل چھڑکا رہا ہے۔
میں دیامر کے لیے کچھ نہیں مانگتا۔ جناب فورس کمانڈر، جناب وزیراعلیٰ ، جناب گورنر، جناب چیف سیکرٹری ، جناب وزیرتعلیم اور جناب سیکرٹری ایجوکیشن سے صرف تعلیمی انقلاب کی بھیک مانگتا ہوں۔ آپ دیامر میں تعلیمی انقلاب برپا کیجیے ، اس وقت تعلیمی انقلاب کے لیے دیامر سے زیادہ موزوں جگہ پورے ملک میں کہیں نہیں۔میں حلفیہ کہتا ہوں کہ اگر آپ نے دیامر کی بگڑتی تعلیمی صورت حال کا کوئی مثبت حل نکال لیا تو دیامر کے لوگ سب سے زیادہ سوالائز، سب سے زیادہ امن پسند اور سب سے زیادہ اس ملک و ملت کی خدمت کرنے والے بن جائیں گے۔ آپ کا ہر عمل، آپ کا ہر اخباری بیان، آپ کا ہر خیال دیامر کو بدنام کرنے میں لگا ہوا ہے اور پھرآپ ان سے محبت اور سوالائز ہونے کی توقع رکھتے ہیں تو کان کھول کر سن لیں ایسا ہونا ممکن نہیں۔اگر دیامر کا تمام تعلیمی اسٹریکچر پاک آرمی کو بھی دیا جائے تو بھی کافی بہتری آسکتی ہے۔ کیڈٹ کالج بھی عرصہ دراز سے سسک رہا ہے۔ آخر کب وہاں باقاعدہ تعلیمی عمل جاری ہوگا؟بلوچستان اور وزیرستان کے لوگوں کو پاکستان آرمی میں خصوصی کوٹہ دیا جاسکتا ہے تو یہی عمل دیامر میں بھی دہرایا جاسکتا ہے۔ خدا کی قسم دیامر کا بچہ بچہ پاک آرمی کا صف اول کا مجاہد بن سکتا ہے۔ آپ دست محبت بڑھا کرتو دیکھ لیجیے حضور۔ ملک اور ملت کی حفاظت کے لیے خون کے آخری قطرہ تک گرانا دیامر والے عبادت سمجھتے ہیں۔ آپ ان کے اس عبادت اور نیک جذبے کاخیرمقدم تو کیجیے۔ کیا یہ کافی نہیں ہے کہ دیامر کی ہر مسجد میں ملک کی سلامتی اور پاک فوج کی کامیابی کے لیے اجتماعی دعائیں ہوتی ہیں؟ پھر بھی شکوہ ہے کہ ہم وفادار نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم وفادار نہیں تو تم بھی دلدار نہیں۔خدارا ! ہم سے محبت کیجیے۔ ہم محبت کے بھوکے ہیں۔ مگر آثار و قرائن یہی بتلا رہے ہیں کہ آپ دست محبت کی بجائے دست نفرت بڑھا رہے ہیں۔ پلیز یہ رویہ ٹھیک نہیں۔ ہم سے بڑھ کر اس ملک و ملت کا کوئی بھی وفادار نہیں ہوسکتا۔دیامر کے ہر گاؤں کے سپاہیوں نے اس ملک کی خاطر جان دے کر سبزہلالی جھنڈے کو اپنا کفن بنا کر اللہ کے حضور حاضر ہوئے ہیں۔اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے میرے اپنے گاؤں کے درجنوں جوان خاک و خون میں مل گئے ہیں ۔ بہرصورت مسٹر حفیظ الرحمان صاحب۔ صرف گلگت اور اسکردو ، گلگت بلتستان نہیں۔ دیامر بھی گلگت بلتستان کا سب سے اہم حصہ ہے۔آپ کو وزارت علیا تک پہنچانے کا سب سے بڑا سہرا دیامر کو جاتا ہے۔ کیا آپ بھی دیامر والوں کو اپنا حصہ سمجھیں گے؟ دیامر میںآپ کا ، آپ کی حکومت کا، آپ کے وژن کا ، آپ کے ترقیاتی دعوؤں کا اور آپ کے وزیروں کی کارکردگی کا شدت سے انتظار ہے۔کیا آپ اپنی توجہ کا، ایک فیصد بھی دیامر کی بحالی کے لیے دینا پسند فرمائیں گے؟ ویسے سچی بات یہ ہے کہ آپ کے دیامر کے وزیر مشیر اپنی عقل کُل کے ذریعے دیامرکی تباہی چاہتے ہیں۔ اگر ان پر انحصار کرنا ہے تو پھر رہنے دیں۔ دیامر کا اللہ ہی حافظ ہے۔ باقی میرے صحافی دوستو۔ جب آپ خبر بنارہے اور اخبار کی سرخی نکال رہے ہیں تو اتنا خیال رکھو کہ اگر یہی خبر آپ اپنے ضلع کے لیے بناتے تو الفاظ کیسے چنتے؟ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ خبر ہمیشہ غیر جانبداری سے بنتی ہے؟ خبر میں کون ، کیا، کہاں کیسے اور کب کا خیال رکھا جاتا ہے اس میں ذاتی خواہش کودخل نہیں ہوتا۔ مگر وائے نادانی۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ