ہنزہ نیوز اردو

دیامر کی سیاست میں ممکنہ تبدیلی۔

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

عمران اللہ مشعل

دیامر کی مجموعی تاریخ کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو گلگت بلتستان کی دیگر اضلاع کی نسبت یہ ضلع اپنی ایک الگ پہچان اور منفرد حثیت رکھتا ہے اسکے بہت ساری وجوہات ہے چاہیے وہ سیاسی ہو معاشی ہو معاشرتی ہو یا دیگر یہاں کے رسم رواج دیگر ضلعوں سے یکسر مختلف ہے۔

سیاسی حوالے موجودہ دیامر اور مستقبل کی دیامر میں اب واضح فرق اور بہت بڑی تبدیلی متوقع ہے۔
دیامر کی سیاسی تاریخ اگر دیکھا جائے تو روایتی خاندانی ،مورثی ،اور اجارہ داری والی سیاست رہی ہے لیکن گزشتہ دو الیکشن 2009 اور 2014 کے بعد روایتی سیاست تبدیل ہوتا جارہی ہے جو کہ خوش آئندہ ہے۔

ان دونوں الیکشنز سے ناصرف پڑھے لکھے لوگ سامنے آئے بلکہ جو ایک روایتی سیاست جو چند خاندانوں کے درمیان تھی وہ بھی ختم ہونے جارہی ہے۔

جس کا سہرہ چلاس کے حلقے سے معروف سیاسی وہ سماجی راہنما حاجی عبد العزیز کو جاتا ہے جنہوں نے چلاس کی سیاست سے دو خاندانی نظام کا خاتمہ کیا اور دیگر لوگوں کے لیے بھی پلیٹ فارم مہیا کیا کہ وہ بھی سیاست میں حق رکھتے ہے اسی بدولت عطاء اللہ بھی سیاسی میدان میں آگئے جوکہ نوجوان اور تعلیم یافتہ ہے جبکہ اسی حلقے سے سابق ممبر حاجی عبدلقدوس مرحوم کی جگہ انکے بھتیجے ایڈوکیٹ عتیق اللہ کو سامنے لایا گیا جو کہ ایک تعلیم یافتہ اور نوجوان ہے اور تھور سے سیف اللہ آئے وہ بھی تعلیم یافتہ نوجوان ہے۔

جبکہ گوہر آباد اور تھک سے عملی سیاسی میدان میں پرانے کھلاڑی جوکہ مورثی اور خاندانی سیاست کر رہے تھے وہاں سے حنیف الرحمان مقدم جیسے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان۔ نوشاد عالم اور عاشق اللہ کا اضافہ بہت بڑی تبدیلی ہے تینوں اعلی تعلیم یافتہ اور نوجوان ہے بد قسمتی جیت تو نہیں سکے لیکن حلقے کی سیاست میں تبدیلی ضرور لائے ہیں۔

اور داریل تانگیر سے بھی تبدیلی دیکھنے کو ملی داریل سے معروف سیاسی و سماجی راہنما ڈاکٹر زمان کی صورت میں داریل میں تبدیلی کی لہر اٹھی جہاں زات پات کی سیاست عروج پے تھی لیکن ڈاکٹر زمان کی سیاست میں آمد سے وہاں بھی پرانے کھلاڑیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور تانگیر میں بھی روایتی خاندانی نظام تھا وہاں سے نوجوان اور اعلئ تعلیم یافتہ سیاست دان کی آمد کی بازگشت تھی تاہم پرانے کھلاڑیوں کی وقتی چال اور سیاست سے نوجوان متحد نہیں ہوسکے لیکن وہاں سے منتخب ممبر مرحوام الحاج وکیل کی جگہ انکا بھتیجا عمران وکیل آگئے وہ بھی نوجوان اور تعلیم یافتہ ہے۔

یہ تو پچھلے دو الیکشنز کی بات تھی جس سے پہلی بار دیامر کی سیاست میں تبدیلی دیکھنے کو ملی اور اسکے اثرات اور نتائج اب آگے آنے والی الیکشنز پر بھی پڑنے والی ہے جس کے لیے پرانے کھلاڑیوں نے اب فیصلہ کر لیا ہے کہ مزید وہ سیاست کی میدان میں نہیں اترینگے بلکہ اپنے جگہ اپنے خاندان سے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو آگے آنے کا موقع دیا جائے گا یہ بھی ایک خوش آئندہ بات ہے کہ نوجوان نئ سوچ کے ساتھ آگے بڑھینگے اور ماضی کی خاندانی سیاست سے باہر نکل کر حلقے اور عوام کے درمیان سیاست کرینگے پھر عوام جس کو مرضی منتخب کریں وہ حقیقی نمائندہ ہوگا۔

پہلے تو دو گھروں اور دو خاندانوں کے علاوہ کوئ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سیاست میں آنے کو اب حالات یکسر بدل گئے اور تمام چاہے انکا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو وہ اب تمام تر زاتی اور خاندانی رنگ نسل سے باہر نکلنا چاہتے ہے جو کہ باشعور ہونے کی علامت ہے۔

اب آگے آنی والی الیکشن کی کہانی کچھ اسطرح ہے
چلاس کے حلقے سے اس بار کوئ پرانا کھلاڑی میدان میں نہیں ہوگا انکے جگہ سب نوجوان ہونگے ان میں حاجی عبدالعزیز کی جگہ متفقہ طور پر مبشرحسین امیدوار ہوسکتے ہے جوکہ ایک کامیاب بزنس مین اعلی تعلیم یافتہ نوجوان سماجی ورکر ہے اور سیاست میں گہری دلچسپی رکھتے ہے حاجی جانباز کی جگہ محمد انور ہونگے وہ بھی اعلئ تعلیم یافتہ اور نوجوان ہے انکا تعلق بیورکریسی سے سیاست میں آنے کیوجہ سے انجئینر کی عہدے سے استعفئ دیا ہے حاجی عبدالقدوس مرحوم کے جگہ پہلے سے ایڈوکیٹ عتقیق اللہ موجود ہے وہ بھی ایک نوجوان اور اعلئ تعلیم یافتہ ہے اور میراجان کی جگہ احسان اللہ میدان میں آئینگے وہ بھی تعلیم یافتہ نوجوان ہے عطاء اللہ اور سیف اللہ پہلے سے ہی حلقے کی سیاست میں جبکہ نیا امیدوار میں ممکنہ طور پر پیپلز پارٹی کے نوجوان راہنما سید آمان بوٹو بھی عملی سیاست میں آسکتے ہے وہ بھی اعلی تعلیم سے فراغت کے بعد سیاست میں سرگرم ہے۔

دوسرا حلقہ گوہر آباد اور تھک سے بھی تقریبا تمام پرانے کھلاڑیوں کی چٹھی ہوگی انکے جگہ نئے چہرے سامنے آئینگے جو کہ اعلی تعلیم یافتہ اور نوجوان ہونگے۔

داریل تانگیر کا بھی مجموعی طور پر یہی صورتحال ہے وہاں سے بھی پرانے کھلاڑیوں کی چٹھی ہوگی اور نئے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی انٹری متوقع ہے جن میں موجودہ ممبر حاجی حیدر کی جگہ معروف بنکار اعلی تعلیم یافتہ نوجوان محمد نسیم امیدوار ہونگے اور اسی حلقے سے ڈاکٹر زمان پہلے سے موجود ہے جبکہ حاجی رحمت خالق نے اس حوالے سے اب تک کوئ فیصلہ نہیں کیا ہے آیا وہ خود لڑینگے یا کسی نوجوان کو موقع دینگے اور تانگیرمیں بھی نوجوانوں کی آمد متوقع ہے۔

یہ سب دیامر کی تاریخ میں پہلی بار ہوریا ہے اور یہ بہت ہی خوش آئندہ عمل ہے اگر اسطرح پڑھی لکھی نوجوان قیادت سامنے آئ تو پورے ضلعے کے لیے سود مند ہوگی اور دیامر سے موجودہ پسماندگی کے خاتمے میں مدد ملے گی اسلیے دیامر کے تمام حلقوں سے خصوصا نوجوانوں سے یہ اپیل ہے وہ اگلی بار خاندانی خول سے طاہر نکل کر اہل امیدواروں کا چناؤ کریں اپنا ووٹ کا استعمال امیدوار کی اہلیت کے مطابق کریں۔

مزید دریافت کریں۔