ہنزہ نیوز اردو

دیامر والو! کب تک تعصب کروگے؟

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

پورے ارض شمال میں آپ پسماندہ ہیں۔ مسائل کے بھنور میں آپ جکڑے ہوئے ہیں۔ اک مسئلہ حل نہیں ہو رہا ہوتا کہ دوسرا جنم لیتا ہے۔ ایسا کوئی محکمہ دکھائی نہیں دیتا جو  اپنی آغوش میں دو  چار مسائل نہیں رکھتا ہو اور نہ کوئی گاؤں ایسا نظر آتا ہے جہاں لوگ دو  چار مسائل سے دوچار نہ ہوں۔
ہمارے مسائل حل کیوں نہیں ہوتے؟ بجائے گھٹنے کے روز بہ روز یہ بڑھ کیوں رہے ہیں؟ ہماری آواز نقار خانے سے باہر نہیں جاتی یا صدائے طوطی درخور اعتنا نہیں سمجھی جاتی؟ ہماری آواز صدا بصحرا کیوں ہے؟  اس کی بازگشت ارباب بست و کشاد کے محلوں کی دیواروں میں سنائی کیوں نہیں دیتی؟ کیوں کسی کے کان میں جوں نہیں رینگتی؟ کیوں کوئی عالم خواب سے عالم بیداری کی طرف لوٹ کر نہیں آتا؟ کیوں ، کیوں ، کیوں؟؟؟
لفظ “کیوں” کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں۔ کئی راز پنہاں ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ عوام جان بوجھ کر انجان ہیں۔ عوامی اور اجتماعی معاملات اور مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک کہ متاثرہ عوام کی صفوں  میں اتحاد و یگانگت کی فضا قائم نہ ہو جائے۔ باہمی انتشار و نااتفاقی راہ حصول حقوق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ٹکڑیوں میں منقسم اقوام حقوق حاصل کر سکتی ہیں نہ مسائل سے چھٹکارا پا سکتی ہیں. مسائل جوں کے توں موجود رہتے ہیں بلکہ روز بہ روز ، ماہ بہ ماہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
 یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم طبقات اور گروہوں میں بری طرح بٹے ہوئے ہیں۔ اب تو اتنے طبقات ، اتنے گروہ اور اتنے فرقے جنم لے چکے ہیں کہ شمار ناممکن ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ تقسیم در تقسیم کا عمل بدستور جاری ہے۔ یہی وہ منحوس تقسیم ہے جو عوام کو دھول چٹوا دیتی ہے اور ارباب بست و کشاد کے لئے فراغت و راحت کا سامان مہیا کرتی ہے۔
قومیت ، تعصب اور علاقائیت کے ڈھول کب تک پیٹتے رہو گے ؟ دنیا کہاں پہنچ گئی تم کہاں کھڑے ہو؟ انتشار اور نفاق میں دیامیر پورے جی بی میں  سر فہرست ہے۔ الحمد للہ علما ، نمازی ، حاجی ، تبلیغی جتنے اس ضلع میں پائے جاتے ہیں شاید صوبہ بھر میں موجود ہوں گے۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ اتنے نیکوکار لوگ اس قدر اخلاقی پستی کا شکار کیونکر ہیں؟
 
دیامیر میں روزانہ اک “سماجی تنظیم” وجود میں آتی ہے اور اگلے دن وہ کسی اور تنظیم کی کھال کھینچتی دکھائی دیتی ہے۔ حالیہ الیکشن کے دوران تو ان تنظیموں سے وابستہ افراد نے کھل کر اپنا باطن عیاں کر دیا ہے۔ مجھے ڈر اس بات کا ہے کچھ تنظیمیں اپنا وجود ہی نہ کھو بیٹھیں ۔ گالی بکنا اور گالی کھانا ان لوگوں کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر لغویات و فضولیات بکنا گویا منشور میں شامل ہے۔ ان سوشل تنظیموں سے میری بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں لیکن دو  چار کو چھوڑ کر باقی سب نے مایوس کیا اور سچ یہ ہے کہ اب ان دو چار سے بھی گھبرانے لگا ہوں ۔ مجھے ان میں نمود و نمائش کی خواہش و تمنا دکھائی دی۔ ایسی تنظیمیں دیرپا اور کارآمد نہیں ہو سکتیں۔
 مسائل کے گرداب سے باہر نکل آنے کے لئے اتفاق ناگزیر ہے۔ فرد واحد کچھ بھی نہیں کر سکتا ،  اس کی مثال انگلی کی مانند ہے۔ اک انگلی کیا کر سکتی ھے؟ جب پانچوں انگلیاں باہم پیوست ھوں تو مٹھی بن جاتی ہے اور مٹھی کی طاقت کا اندازہ کسے نہیں ہوگا؟
تو آئیں ، ہم بند مٹھی بن جائیں اور اپنے حقوق کی جنگ لڑیں ، اپنے مسائل حل کرانے کے لئے آواز بلند کریں۔ یونہی اگر قومیت ، تعصب ، عصبیت ، علاقائیت اور سیاست کے ڈھول سینوں سے لگا کر پیٹتے رہیں گے تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کوستی رہ جائیں گی۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ