ہنزہ نیوز اردو

خواتین صحافیوں کو درپیش مسائل۔

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

کل رات کو میں پی ٹی آئی کا کراچی کا جلسہ دیکھ رہا تھا۔وہاں بڑی تعداد میں موجود تھے۔اور اکثر تعلیم یافتہ عوام موجود تھی۔اس جلسے کو کاوریچ کرنے کےلیے صحافیوں کی بھی ایک بڑی تعداد جلسہ گاہ میں موجود تھی۔وہاں جو خواتین صحافی بھی تھی جو رپوٹنگ کرہی تھی۔ان میں سے کحچہ صحافی خواتیں کے ساتھ جو غیر اخلاقی اور غلیص زبان کا استعمال ہوا تو افسوس ناک تھا۔وہاں پی ٹی آئی کے جو ٹائیگرز جو دیکھنے میں تعلیم یافتہ بھی لگ رہے تھے۔ایک نجی چینل کے صحافی خاتون جو رپوٹنگ کر رہی تھی۔اس کے ساتھ غیر اخلاقی حرکتیں کرتے رہے۔اور ساتھ گالم گلوچ بھی کرتے رہے۔ مگر بدقستمی سے وہاں انکو روکنے یا منع کرنے والا کوئی نہیں تھا۔اگر تحریک انصاف کی جماعت کی بات کریں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔اسلام آباد میں 126 دن دھرنے کی کاوریچ کرنے والی خواتین صحافیوں کے ساتھ بھی نازیباں حرکتیں کرچکے ہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ جس جماعت کا نام تحریک انصاف ہے اور اس جماعت جس نے بنیاد رکھی ہے اس نے پوری دنیا دیکھی ہے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس جماعت کو بنایا ہے۔اور اس سیاسی جماعت میں زیادہ ترسپوٹرز تعلیم یافتہ اور خواتین کی ہے۔اس کے باوجود ان کے کارکنوں کا خواتین صحافیوں کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ انتہائی قابل مذمت اور افسوس ناک ہے۔عمران خان کو ایک چینل کے صحافی کی طرف سے شکایت کرنے پر عمران کا جواب کحچہ یوں تھا۔کہ اپنے چینل کو ٹھیک کریں۔کرنا تو یہ چاہیے تھا کہ جس کسی نے بھی کوئی غیر اخلاقی حرکت کی ہے۔اس کےلیے کوئی کمیٹی تشکیل دے کر جانچ کر کے اگر کسی نے واقعی اس طرح کی کوئی حرکت کی ہے تو سزا دیتے ۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔پھر ان کے کارکنوں کے بارے میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔جب لیڈر ایسا ہوگا اور یہ تربیت دینگے تو وہ بھی باقی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور ان کے پارٹی کے کارکن بھی تعلیم یافتہ پھر بھی اگر یہ صورت حال ہے تو پھر تو اللہ ہی مالک ہے۔اب چند نوجوان سوال کرتے ہیں کہ میڈیا کے چند چینل ہمارے مخالفت کرتے ہیں۔اس لیے ان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔بقول عمران خان ان کا بھی تو یہ کہنا تھا کہ اپنے چینل کو ٹھیک کریں۔مطلب میری تعریف کریں۔میری ہر بات کے ساتھ اتفاق کریں۔اگر نہیں کرینگے تو آپ کے ساتھ یہ ہوتا رہے گا۔اور اب تک ہو بھی رہا ہے۔ کسی صحافی نے یا چینل کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اقتلاف نہ کریں۔ان کے کاموں کی تعریف ہی کریں چاہیے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ایسا تو ممکن نہیں ہے۔عمران کے اوپر نوجوانوں نے بڑی اومیدیں لگائے ہوئے ہیں۔اس لیے جو عمران خان کہتے ہیں وہ کارکنوں آنکھ بند کر کے کرتے ہیں۔پاکستان میں خواتین کو حراس کرنے والا کلچر کو عام نہ کریں کیونکہ کل کو کوئی بہن بیٹی صحافت جیسی مقدس پیشے کو اپنانے سے پہلے سو دفعہ سوچنے پر مجبور ہونگی۔اور یہ کلچر عام ہوا تو خواتین کے گھر سے نکلنا مشکل ہوگا۔ساتھ تحریک انصاف کے خواتین جو ان کے پارٹی کو کئی سالوں سپورٹ کر رہی ہیں اور اسمبلی میں بھی رہی ہیں آپ لوگ بھی خان صاحب کو مشہورہ دیں۔یہ جو ایک رسم چلی ہے۔بہن بیٹیوں کی عزتوں کو اچھالنے کی ختم کریں نہیں تو ان بہن بیٹیوں کی بد دعا پارٹی کو لے ڈوبے گی۔وسلام۔

مزید دریافت کریں۔