ہنزہ نیوز اردو

خواتین اور پارٹی ٹکٹ

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

کچھ دن قبل صدر پاکستان عارف علوی نے گلگت بلتستان میں 18 اگست 2020 کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا ، جوں جوں گلگت بلتستان میں الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے ، سیاسی جماعتوں نے بھی بلواسطہ یا بلا واسطہ انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے ، جو کہ بہت محترکہ ہیں آنے والے الیکشن میں کامیاب ہونے کے لیے سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں ، ادھر سیاسی جماعتوں کے مقامی عہدیداران انتخابات کی وجہ سے عوامی مہم میں مصروف ہیں تو وفاق میں ان جماعتوں کے عہدیداران بھی گلگت بلتستان کی سیاست میں پیش پیش ہوتے اور ٹی وی پر گلگت بلتستان کے متعلق بیانات دیتے نظر آرہے ہیں ، وہ نیشنل میڈیا جو گلگت بلتستان کے متعلق کل تک خبر نشر بھی نہیں کرتا تھا آج وہ اپنے ٹی وی چینل پر گھنٹہ گھنٹہ گلگت بلتستان کی سیاست اور انے والے انتخابات پر ٹاک شوز کر رہے ہیں اور آنے والے وقتوں میں ہر میڈیا چینل پر آپ کو گلگت بلتستان ، گلگت بلتستان نظر آئے گا ۔ نیشنل میڈیا کی طرح اگر میں وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور کی بات کروں تو نیشنل میڈیا اور وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان ایک جیسے ہیں جو کچھ وقت قبل تک غائب تھے ، جن کا گلگت بلتستان کی طرف دھیان بھی نہیں تھا لیکن جب گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن نے اپنی حکومت پوری کی ہے اور انتخابات کا وقت قریب سے قریب تر آرہا ہے تب وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان جناب علی امین گنڈاپور کو گلگت بلتستان کی یاد انے لگی ۔ یہ بات پوشیدہ نہیں اور گلگت بلتستان میں بچہ بچہ کو معلوم ہے کہ آج سے قبل بھی وفاق میں جس جماعت کی حکومت ہو وہ ضرور گلگت بلتستان میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہیں ، خیر میں وقت سے قبل کچھ نہیں کہہ سکتی ، اگر میں آج سے کچھ وقت پہلے کی بات کروں تو تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما ، خواتین کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود اور ان کو با اختیار بنانے کی باتیں کرتے نظر آتے تھے چاہیے وہ مرد رہنما ہوں یا خواتین رہنما ، زبانی طور پر سب خواتین کے حقوق کی فکر لاحق تھی ، اب یہ وقت آیا ہے اور ہم دیکھیں گے کہ یہ لوگ سچ میں خواتین کے حقوق کی حفاظت کی بات پر ڈٹے ہیں ، اب دیکھنا ہوگا کہ گلگت بلتستان میں کونسی سے جماعت خواتین کو بھی انتخابات لڑنے کے لیے ٹکٹ دیتی ہیں ، کون کس جماعت کی نمائندگی کرتی ہوئی نظر آئے گی ، کس حلقے سے الیکشن لڑئے گی ؟
اگر خواتین کو با اختیار بنانا ہے تو سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مرد امید واروں کی طرح خواتین امیدواروں کو بھی انتخابات کے میدان میں اترے تاکہ وہ بھی انتخابات میں جیت کر اسمبلی میں جائیں ، اور گلگت بلتستان کی خواتین کی حقیقی معنوں میں نمائندگی کرتی ہوئی نظر آئے اسمبلی میں خواتین کے لئے مخصوص نشستیں بھی مختص ہو۔۔۔۔اکثر دہکھا گیا ہے جتنی بھی خواتین اسمبلی میں مخصوص نشستوں پہ براجمان رہی لیکن انہوں نے خواتین کی ترقی کے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے
اگر خواتین بھی انتخابات میں براہ راست حصہ لے کر انتخابات لڑ کے جیت کر اسمبلی میں آئیں گی تو وہ خواتین کی مضبوط اور طاقتور آواز ہونگی ، جن پر امید کی جاسکے گی کہ یہ اسمبلی ممبران خواتین کے حقوق اور ان کی حفاظت ، فلاح بہبود اور ترقی کے لیے بہتر ثابت ہونگی جو خواتین کے حق میں اسمبلی سے بل پاس کروائیں گی، ان کے مقابلے جو مخصوص نشستوں پر انتخابات لڑے بغیر اسمبلی میں آتی ہیں ۔ اب یہ سیاسی جماعتوں کے لیے اہم بات ہوگی کہ وہ خواتین کو بہادر اور نڈر اور بااختیار بنانے کی باتیں کرتے تھے ، کیا آج اپنے باتوں پر قائم رہ کر پارٹی پلیٹ فارم سے ٹکٹ دینگے خواتین کو بھی ، اگر ماضی کی طرح گلگت بلتستان میں کسی سیاسی جماعت نے خواتین امیدواروں کو ٹیکٹ نہیں دیا تو پھر ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کی باتیں صرف اور صرف جھوٹ پر مبنی تھیں ، اگر ہم گلگت بلتستان کی آبادی کو دیکھیں تو تقریباً نصف آبادی خواتین کی ہے ، نصف آبادی ہونے کے باوجود خواتین کا انتخابات میں حصہ نہ لینا ، خواتین کو پارٹی ٹکٹ نہ دینا ان کو نظر انداز کرنا بہت افسوس اور دکھ کی بات ہوگی کہ ہمارے سیاسی جماعت صرف خواتین ہونے کی وجہ سے خواتین کو پارٹی ٹکٹ نہیں دے رہے ہیں ، جس طرح سیاسی جماعتوں میں خواتین کو پارٹی ٹکٹ نہیں دے کر نظر انداز کیا جاتا ہے آپ سوچیں کہ اگر گلگت بلتستان کی خواتین نے گلگت بلتستان کے انتخابات میں ووٹ کاسٹ نہیں کیا تو کیا حال ہوگا ؟
کیا خواتین کے ووٹ کے بغیر کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں کامیابی کا سوچتے سکتے ہیں ؟ ممکن ہی نہیں ہے کوئی سیاسی جماعت خواتین کے ووٹ کے بغیر جیتے ، یہ سوچنے کی بات ہے کہ آپ اپنی جماعت سے خواتین امیدوار کو ٹکٹ نہیں دے رہے ہیں تو اپنے خواتین کارکنوں سے ووٹ کی امید کیسے رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مزید دریافت کریں۔