ہنزہ نیوز اردو

جی۔بی کے عوام کی محرومیوں کا آزالہ ۔ریاست کا مفاد

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

  وزیر نعمان علی         

گلگت بلتستان کے تشخص کا مسلہ 1970 سے مختلف شکلوں میں آٹھتا رہا ہے۔ لیکن ان تحریکوں میں عوام کی عدم دلچسپی کیوجہ سے کوئی پذیرائی نہیں مل سکی۔ ملک کے دیگر حصوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء  بھی مسئلہ کشمیر کے تناظر میں مسئلہ گلگت بلتستان کے حل کے لئے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔  قومی حقوق کے لئے لوگوں میں شعور و آگاہی اجاگر کرنے کے لئے مختلف قومی جماعتیں وجود میں آئی جسمیں قراقرام نیشنل موومنٹ و بالاورستان نیشنل فرنٹ جیسی جماعتیں  شامل ہیں جو علاقائی تشخص کے لئے جدوجہد کرتی رہی ہیں مگر ان کوعوامی پذیرائی حاصل نہیں ہو پائی۔  قوم پرست جماعتوں کو عوام میں پذئرائی تو حاصل نہیں ہوئی  لیکن  تنازعہ گلگت بلتستان کو یو۔این۔آئی۔سی۔پی کی قراردادوں کے تحت داخلی خودمختاری  کے  ان کےمطالبے کو عوام میں میں مقبولیت حاصل ہوگئی ۔  
 1997کو ایک احتجاجی مظاہرہ گلگت شہر میں کیا گیا جس پر پولیس کا کریک ڈؤان ہوا۔ کچھ رہنماء گرفتار ہوئے بعد میں انکو رہائی ملی۔ لیکن ان میں سے ایک عبدالحمید خان نامی بلاورستان نیشنل فرنٹ کا رہنماء بڑی آسانی سے نامعلوم مقام پر منتقل ہوگیا۔ اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی مگر الحمید خان کو گلگت بلتستان کے لوگوں نے کبھی قومی رہنماء کے طور پر  قبول نہیں کیا۔ خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے عبدالحمید نے ایک ویب سائٹ کے ذریعے پاکستان کے خلاف محاذ گرم کر رکھا تھا۔ ان پر یہ بھی الزام لگا کی وہ بیرون ملک سے جی۔بی میں پیسے بیجتا رہا ہے۔ اور انکے بھیجے ہوئے پیسوں سے مختلف یونیورسٹیز میں زیر تعلیم طلباء مستفید ہوتے رہے ہیں۔ تقریبا انکی جلاوطنی کے پندرہ سال بعد  ان پر غیر ملکی فنڈنگ لینے کا الزام ملک کی ایجنسیوں کیطرف سے لگا۔   حیرت اس بات پر ہے کہ 2000میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے عبدالحمید کی سرگرمیوں کے بارے میں پندرہ سال بعد ملک کی باخبر ایجنسیوں کو خبر ہوئی یا وہ جان بوجھ کر اسکی سرگرمیوں سے بے خبر رہے۔ کیا حقیقی معنوں میں گلگت بلتستان کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو عبدالحمید نامی کردار کے ذریعے بیس سال بعد نقصان پہنچانے کے لئے پلان اندرون خانہ تیار کیا گیا تھا۔ اور ٹھیک بیس سال بعد بیرون ملک سیاسی پناہ لینے والا  خود ساختہ رہنماء عبدالحمید خان جو ریاست پاکستان کے خلاف مختلف بین الاقوامی فورمز میں بولتے  رہے تھے آچانک ڈرامائی انداز میں پاکستان میں نمودار ہو جاتے ہیں۔اور حقیقی قومی تحریک کو جسکو مختلف قومی تنظیمیں پاکستان کے زیر انتظام رہتے ہوئے ریاست پاکستان کے بیانیہ سے ہم آہنگ ہو کر  چلا رہی تھیں کو  نقصان پہنچایا۔  یہ ان کی آپنی خود ساختہ جلاوطنی ترک کرکے پاکستان آکر سبوتاژ کرنے کی آپنی دانست  میں ایک کوشش ہے۔
گلگت بلتستان کے قومی حقوق کے لئے پاکستان کے زیر انتظام رہ کر جدوجہد کرنے والے رہنماؤں نے کبھی اس خود ساختہ رہنماء کے نظریات کو  قبول کیا اور نہ ہی کبھی ان سے رہنمائی لی۔ 
کیا بیرون ملک سیاسی پناہ لینے والا کسی شخص کو اس طرح زبردستی آپنے ملک لایا جاسکتا ہے۔ ایسا ممکن ہوتا تو ریاست پاکستان سب سے زیادہ آپنے لئے خطرہ محسوس کرنے والے جلاوطن کشمیری رہنماء شوکت کشمیری کو لے کر آتے۔ عبدالحمید خان بیس سال تک ملک کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کے بعد آچانک پاکستانی ایجنسیوں سے ڈیل کر کے ملک واپس آنے کی ضرورت کیوں محسوس کرتے ہیں۔ کیا انکی بیس سالہ سرگرمیوں کو آچانک ریاست معاف کر دے گی۔ یا بیس سال پہلے انکو قومی حقوق کی حقیقی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لئے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے کا محفوظ راستہ فراہم کیا گیا اور ٹھیک بیس سال بعد یعنی 2019 میں اس مہرے کو آچانک منظر عام پر لا کر پرامن جدوجہد کرنے والوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی؟۔
اس خود ساختہ رہنماء کے آچانک نمودار ہونے کے بعد پاکستان کے زیرانتظام رہ کر آپنے   حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں میں قومی تحریک کو بیرون ملک سے فنڈنگ لے کر جدوجہد کو سبوتاژ کرنے پر ملک کی ایجنسیوں کے کردار پر سوالات آٹھ رہے ہیں۔
گلگت بلتستان کا مسلہ انتہائی سادہ اور قابل سمجھ ہے۔ جسے جان بوجھ کر پیچیدہ بنائے جانے پر حقیقی سیاسی کارکنوں اور عوام گلگت بلتستان میں اضطراب اور بدترین مایوسیاں جنم لے رہی ہے۔ قومی حقوق کی جدوجہد کرنے والے رہنماؤں کا موقف ہے کہ گلگت بلتستان تا تصفیہ کشمیر متنازعہ ہیں۔ اس متنازعہ علاقے کو وہی حقوق دئے جائیں جو پاکستان نے آپنے زیر انتظام کشمیر کو دئے ہیں یا وہی حقوق دئے جائیں جو ہندوستان نے آپنے زیر انتظام کشمیر کو دے رکھے ہیں۔ گلگت بلتستان کے قومی رہنماء پاکستان کے زیر انتظام رہ کر آپنے بین الاقوامی مسلمہ حقوق کی پرامن جدوجہد کررہے ہیں۔ انکا موقف ہے کہ 13آگست1948 کی یو۔آین۔آئی۔سی۔پی کی قراردادوں کے تحت گلگت بلتستان کو داخلی خود مختاری دی جائے۔ انکا موقف ہے کہ مسلہ کشمیر کے دو فریقوں کو کسی حد تک انکی متنازعہ حثیت کو تحفظ دے کر رکھا گیا ہے جبکہ گلگت بلتستان کو وفاق کی کالونی بنا کر انکے وسائل اور اراضی پر وفاق نے قبضہ جما  رکھا   ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بدترین پامالی پر بھی انتہائی محرومی پائی جاتی ہے۔ انکا موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک کوئی بھی غیر مقامی گلگت بلتستان کی زمین کا مالک نہیں بن سکتا۔ بدلتی ہوئی ڈیموگرافی پر بھی عوام میں انتہائی اضطراب جنم لیتا جارہا ہے۔
ریاست پاکستان کو چاہیے کہ وہ گلگت بلتستان میں  میں بسنے والے اور تہتر سالوں سے ریاست سے وفاداری نبھانے والے اور مختلف جنگوں میں داد شجاعت پانے والوں کی وفاداریوں پر انگلی آٹھانے کے بجائے۔ انکے جائز بین الاقوامی  طور پر مسلمہ حقوق دے کر محرومیوں کا بروقت آزالہ کر ے۔ وگرنہ انکے اندر جنم لینے والی محرومیوں کا فائدہ ملک دشمن طاقتیں حاصل کرکے ملک کو حقیقی معنوں میں مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔
گلگت بلتستان کے عوام آپنے تشخص کے لئے انتہائی حد تک فکر مند ہیں۔لیکن وہ ایسے عناصر سے بیزاری اختیار کئے ہوئے ہیں جو انکی محرومیوں کا فائدہ حاصل کرکے ریاست کے خلاف انکے جذبات کو اکسانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ پاکستان کے زیر انتظام رہ کر ہی آپنے مسلمہ حقوق کے حصول کے خواہاں ہیں۔ 

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ