ہنزہ نیوز اردو

جنگلات کے تحفظ اور عارضی ملازمین

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

تحریر۔اسلم چلاسی

یہ ایک حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ قدرتی جنگلات دیامر میں واقع ہیں۔ داریل تانگیر ڈوڈشال کھنبری تھور ھڈور گیچی بٹوگہ تھک کھنرگینی بونرگوہر آباد فرامیڈوتھلیچی اور دیگر کئی زیلی نالہ جات میں ہزاروں ایکڑ پر محیط بالائی علاقوں میں قیمتی قدرتی جنگلات واقع ہیں۔جن میں دیار ،کائل اور ،فر انتہائی قیمتی اقسام ہیں جس کو تعمیری مقاصد کیلے استعمال کیا جاتا ہے۔جبکہ اس کے علاوہ بھی درجنوں اقسام کے جنگلات ہیں جو سوختنی لکڑی یعنی کہ اندہن اور دیگر اوزار کیلے استعمال کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی انہی جنگلات میں انواع اقسام کے ایسے قیمتی جڑی بوٹیاں کثرت سے پائے جاتے ہیں جو دنیاں کے کسی اور خطے میں نہیں ہیں۔جڑی بوٹیوں کے ماہرین ہر سال موسم گرما کے امد کے ساتھ آتے ہیں اور بغیر معاوضے کے قیمتی جڑی بوٹیاں لیکر چلے جاتے ہیں اور محکمہ جنگلات کو خبر تک نہیں ہوتی ہے۔چونکہ دیامر کے جنگلات وسیع وعریض رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں ۔اگر جنگلات کے ایک سرے کا جایزہ لیا جائے جیسا کہ تانگیر اور کھندیا ں کے حدود سے لیکر دیامر کا آخری حدود سگہ سل تک تو یقنآ یہ علاقہ سیکڑوں کلو میٹر طویل بنتا ہے۔اور دوسرے سریے بھاشہ سے لیکراستور کے حدود تک بھی سیکڑو کلو میٹر کا طویل علاقہ ہے ۔انڈس ریور کے آر پار دونوں جانب سیکڑوں کلومیٹر پر پھیلا ہوا دیامر کا علاقہ جس کے بیشتر بالائی حصے جنگلات سے مذین ہیں اورساتھ ہی جنگلی حیات کا مسکن بھی۔لیکن بدقسمتی سے گزشتہ چالیس سالوں سے قیمتی جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہوتی آرہی ہے جس کی وجہ سے گنا جنگل انتہائی آخری حدو ں تک پونچا ہوا ہے۔دیار تو بلکل نایاب ہے بہت کم علاقے شاید ایسے ہو جہاں دیار کی کوئی وجود باقی ہو ۔کایل بھی کم مقدار میں موجود ہیں البتہ فر اور دیگر اقسام کا جنگل اب بھی بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے۔اب مافیا باقی مانند جنگل کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔اور یقینآ آیندہ چند سالوں میں اسطرح کا عمل جاری رہا تو جنگل کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔اس تمام تر ابتری کی زمداری بلاشبہ محکمہ جنگلات پر عاید ہوتی ہے مگر گہرائی سے تحقیق کے بعد کم از کم میں اس نتیجے پر پونچ چکا ہوں کہ سیکڑوں کیلو میٹر علاقے پر محیط جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کیلے دستیاب عملہ بلکل نا کافی ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ چالیس سالوں سے جاری جنگل کی کٹائی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ایک فارسٹ گارڈ بچارہ مینس ٹمپریچر میں ایکڑوں پر محیط جنگلات کی تحفظ کو کیسے یقینی بنا سکتا ہے؟بیشتر جنگلات تک تو روڈ کی سہولت بھی موجود نہیں ہے گھنٹوں پیدل چل کر جاے وقوع تک پونچنا پڑتا ہے بعض جگے تو ایسے بھی ہیں کہ جنگل تک پیدل دو دن کا سفر ہوتا ہے ۔اور یہ سفر ایسا مشکل ہے کہ کوئی چوٹی سر کرنے میں اتنی دشواری نہیں ہوتی جتنی اس سفر میں پیش آتی ہے۔لیکن پھیر بھی محکمہ جنگلات کے اہلکار کم از کم وہاں پونچنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کی امد کا اطلاع پہلے سے ہی مافیا کو ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے جرم کرنے کے باوجود مجرم کا سراغ لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔اور سالانہ درجنوں مقامات پر آگ لگنے کے واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں مناسب بندوبست اور عملے کی کمی کی وجہ سے آگ پر قابو پانا ممکن نہیں ہوتا ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے قیمتی جنگل کے ایک بڑے حصے کو راکھ کے ڈیر میں تبدیل کر دیتا ہے ۔ظاہر ہے اتنے بڑے علاقوں کو ایک یا دو اہلکاروکے زریعے محفوظ بنانے کا دعوہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن عملی طور پر جنگلات اور جنگلی حیات کو محفوظ نہیں بنا یا جا سکتا۔دیامر کے قدرتی ماحول کو محفوظ بنانے کیلے کم از کم ایک ہزار اہلکاروں پر مشتمل جنگلات فورس بنا نے کی ضرورت ہے اور تب ہی جنگلات اور جنگلی حیات کی تحفظ ممکن ہے ورنا آیندہ چند سالوں میں جنگلات کے شکل میں موجود قدرت کے اس عظیم تحفے سے ہم محروم ہو جائینگے۔جن لوگوں نے آٹھ دس دس سالوں سے ولینٹیر یا کنٹیجینٹ پیڈ کی شکل میں خدمات سر انجام دی ہے ان لو گوں کو پرمنٹ کرنے کی ضرورت ہے۔چونکہ وہ اپنے وسیع تجربے کے بنیاد پر جنگلات کو محفوظ بنانے کیلے کردار ادا کر سکتے ہیں۔کچھ اہلکار ایسے بھی ہے جو پانچ سے دس ہزار میں دوتین سالوں سے چک پوسٹوں پر بطور چوکیدار کام کرتے آرہے جو اچھے شہرت بھی رکھتے ہیں ان کو مستقل کرنے کی ضرورت ہے۔خاص کر دیامر کے جنگلات کے تحفظ کیلے فوری اقدامات کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے وقت ضایع کیے بغیر تمام کنٹیجنٹ پیڈ ملازمین کو مستقل کیا جانا چاہیے اور ساتھ ہی جنگلات فورس کو قایئم کرنے کا وعدہ بھی ایفا ہونا چاہیے ورنا جس حساب سے مافیا جنگلات کی قتل عام میں لگی ہوئی اس طرح مزید بے لگام رہی تو آیندہ چند سالوں میں سوائے افسوس کے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔باقی محکموں کے ملازمین جن کو مستقل کیا جا چکا واقع قابل تعریف عمل ہے جس کا کریڈٹ صوبائی حکومت کو جاتا ہے غریبوں کی روزی روٹی کا مسلہ تھا روزگار مستقل ہوا لیکن محکمہ جنگلات کے ان ملازموں کو مستقل کرنا صرف روزگار کا حصول نہیں ہے بلکہ جنگلات کے بقا کیلے ضروری ہے۔اور یقینآ مجھے امید ہے کہ صوبائی حکومت قدرت کے اس حسین ماحول کو محفوظ بنانے میں فورٓٓاقدامات اٹھائے گی۔اور ساتھ ہی دیامر کے بیشتر علاقوں میں سالوں سے پڑی ہوئی قیمتی عمارتی لگڑی جس کو فورٓٓ مارکیٹ تک رسائی کی ضرورت ہے جو بلکل جایز طریقے سے کٹائی کر کے لایا گیا ہے اس کی ترسیل میں حایل رکاوٹو کو بھی فورٓٓ دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ قیمتی لکڑی بوسیدہ ہوکر ناکارہ ہونے بچ جائے ۔

 

مزید دریافت کریں۔