ہنزہ نیوز اردو

جمہوریت اور پاکستان قسط نمبر ۱

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

کیا پاکستان جمہوری ریاست ہے ؟
کیا پاکستان کے نظام جمہوری طرز کا ہے؟
کیا جمہوریت کے نام پہ آمریت قائم ہے؟

جمہوریت کو انگریزی میں ڈیموکریسی کہتے ہیں جو دو یونانی لفاظ ڈیمواورکاریٹ سے اخذ کیا گیا ہے یعنی ڈیمو عوام اور کارٹیس سے مراد حکومت کی ہے یعنی لفظ جمہوریت سے مراد عوام کی حکومت ہے
جہاں عوام اپنے رائے حق مرضی اور اپنی نظریے فکر افکار کے ساتھ اپنی حاکمیت اور ملکیت سے ایک نظام چلائے جہاں امیر غریب سب اپنی صلاحیت سے ریاست کے باگ ڈور میں اپنی کردار اُدا کرسکتے ہیں جہاں نظام یکساں میسر ہوتا ہے جہاں حق رائے عوام کی بنیادی حق ہوتا ہے جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے جہاں ہر کوئی حصہ دار ہوتا ہے چاہیے وہ معاشرے کی کسی بھی طبقہ سے کیوں نہ ہو یہ نظام اکثریت کی حکمرانی قائم کرتا ہے نہ کہ مخصوص گروہ کی ہاتھوں میں اقتدار دیتا ہے جس کو عوامی مینڈیت حاصل ہو اور عوامی حق رائے جہاں پچاس فیصد سے زیادہ ہو اُن کو ریاستی حاکم منتخب کروایا جاتا ہے نہ کہ معاشی معتبر جاگیردار وڈیروں کی مخصوص گروہ کو مسلط کیا جاسکتا جمہوری ممالک میں عوام کی حکومت عوام کے لئے اور عوام کے ذریعے ہوتی ہے دنیا کی سب سے بڑے جمہوری ممالک میں عوامی رائے اور عوامی نظریے کو مسترد نہیں کیا جاتا اگر کیا جاتا ہے تو وہ کوئی جمہوری ریاست نہیں ہوتی
بقول اقبال
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

جمہوریت کی کامیابی کے لئے وہاں کے لوگوں کے لئے انتہائی باشعور ہونا ضروری ہوتا ہے اُن کو اتنی سمجھ بوجھ ہو کہ اُن کیلئے کیا اچھا کیا برا ہے جب کسی جمہوری ریاست کے عوام اپنے اچھے اور برے میں تمیز کا شعور رکھتے ہیں وہاں پر جمہوری کامیابی یقینی ہو جاتی ہے یہاں میں ایک مثال دوسری جنگ عظیم میں چرچل نے برطانیہ کو فتح دلوائی لیکن وہ جنگ کے فوراً بعد ہونے والی عام انتخابات میں بُری طریقے سے اٹیلی سے شکست کھا گیا تھا کیونکہ وہاں کی عوام کو یہ جمہوری شعور تھا اور اُن کو علم تھا کہ چرچل جنگ جتنے کے بعد جنگی ہیرو بن چکا تھا ہر کوئی چرچل کو چاہنے لگے تھے اور اُس کو جنگی شہرت حاصل ہوچکی تھی وہ اُسی جنون میں برطانوی ریاست کو کسی اور جنگ میں ڈھکیل سکتا تھا اس جارحانہ افکار کی وجہ سے عوام نے ایٹلئ کو وزیراعظم منتخب کروایا اگر عوام میں شعور ہو تو وہ اپنی ریاست میں کٹھ پتلیوں اور سیاسی عما کے غلام بنے نہ رہینگے پاکستان کے اندر آج تک 76سالوں سے کوئی جمہوریت نہیں بلکہ یہاں کی نظام جاگیردار معاشی معتبر وڈیروں اور طاقتور لوگوں کی ملکیتی رائے سے ہے جہاں وہ جب چاہیے اپنی حکومت اپنی مرضی اپنی اقتدار قائم کرسکتے ہیں ایسے نظام کو جمہوریت نہیں بلکہ آمریت کہا جاتا ہے
جمہوری ریاست کسی ملک کے اندر یکساں انسانی حقوق مساوات برابری اور جہاں سماج کے رو رواں تمام تر لوگوں کو میسر تمام مخلوط اور غیر مخلوط نظام کو مساوات اور یکساں رکھنے کا نام ہے جہاں قانون سب کے لئے یکساں ہو جہاں اے کلاس بی کلاس کی سوچ نہیں ہوتی جہاں ہر طبقے کے لوگوں کو اُن کی اہلیت اور صلاحیتوں کی وجہ سے اُن کو قانون سازی میں مکمل حق ہے جہاں طبقاتی فکر مکمل مسترد کی جاتی ہے جہاں انصاف عدل ہر طبقے کے لوگوں کو یکساں میسر ہوتا ہے جہاں امیر غریب معتبر جاگیردار وڈیروں کا کوئی سوچ نہیں ہوتا جہاں عوام کسی کو بھی اپنی نمائندگی کے لئے منتخب کروائے تو اُس کو اشرفی اور گنڈے جو بہت قلیل مگر طاقت کے بنیاد پہ قابض نہیں کرسکتے جس کو عوام مینڈیت کرے اُس پہ کوئی معاشی طاقت وار مسلط نہیں کیا جاسکتا
جمہوریت میں طاقت نہیں چلتی ہاں رائے حق اور عوامی منڈیت کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے جہاں انتقام بدلے بھوک نانگ سے دیا جاتا ہو یا کسی سیاسی ورکر کو سیاسی انتقام کا نذر نہیں کیا جاتا ہے جہاں ہر کسی کا اپنی نظریہ کی آزادی حاصل ہوتی ہے
جمہوریت کو مظبوط اور کامیاب بنانے کے لئے فوج اور بیوروکرسی کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے فوج کو ریاست کی حفاظت کے لئے ریاست کے سرحدوں کی تحافظ مکمل حاصل ہے مگر فوج کو کبھی بھی ریاست کے اندر عوام اور سیاست سے دور ہونا انتہائی اہم ہوتا ہے وہ عوامی منڈیٹ اور جمہوری راج کی اُصولوں کی احترام کرتے ہوئے اپنی دفاعی کردار ادا کرنا چاہیے وگرنہ ریاست کے اندر انتشار بغاوت اور ریاستی نظام بدامنی کا شکار ہو جاتا ہے اور بیوروکرسی کا کام ریاست کی پالیسیوں کو قومی اور بین الا اقوامی سطح پر کامیاب کروانا ہوتا ہے ان کو ریاست نے جو ذمہ داری دی ہے اُن کو احسن طریقے سے انجام دینا ضروری ہوتا ہے تاکہ ریاست اور قوم ترقی یافتہ ممالک کی طرح دنیا سے مقابلہ کرے
شکریہ

مزید دریافت کریں۔