ہنزہ نیوز اردو

تمباکونوشی ایک جان لیوا عمل

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

نوید کریم 

زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انمول تحفہ اور عظیم نعمت ہے۔ زندگی آپ اور آپ کے پیاروں کے لئے انتہائی عزیز اور اہم ہے۔ انسان بعض دفعہ اپنی زندگی کو جانے انجانے میں ایسے کاموں میں لگا لیتا ہے جہاں سے انسان کاباہر آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسے افعال انسان کو نہ صرف ذاتی طورپر جہالت کے اس اندھیرے کنویں میں ڈال دیتے ہیں بلکہ اُن کی اولادیں بھی اسی دلدل میں دھکیل پھنستی چلی جاتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں انسان کو نہ صرف خاندان میں بلکہ معاشرے میں بھی لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے درگاہ میں اپنی عاقبت کو بھی داغ دار کرتا ہے۔ ایسے بُرے افعال کے حامل افراد کی متمدن اور باضمیر معاشروں میں حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اُن کی معاشرے میں کوئی عزت نہیں کی جاتی، جس کی وجہ سے ایسے لوگ توبہ کر کے راہ راست پر آنے کے بجائے مزید بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ اس بے حسی اور مردہ دلی کی بنیادی وجہ دین سے دوری اور تعلیم و تربیت کی کمی کا ہونا ہے۔ تمباکو نوشی کے عمل کو بھی اِن برُے کاموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر بروقت اس عادت پر قابو نہیں کیا جائے تو یہ لعنت انسان کو اس سے منسلک دوسرے ایسے اُم الخبائث نشوں میں مبتلا کرنے کا موجب بھی بنتا ہے، جن میں مبتلا ہونے کے بعد انسان نہ صرف ذاتی اور معاشرتی زندگی تباہ ہوتی ہے بلکہ لاکھ کوشش کے باوجود انسان ان عادات سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ سگریٹ ایک ایسی لعنت ہے جس کی ابتدا کثر اوقات دو وجوہات اور طریقوں سے شروع ہوتی ہے۔ سب سے پہلی اور بڑی وجہ نوجوانوں کی بُری صحبت ہے، جس میں بچہ نام نہاد دوستوں کی محفل میں نام نہاد یاری دوستی کے بھینٹ چڑھ جاتا ہے، اور دوستوں کا دل رکھنے ، اُن کو خوش کرنے، یا دوستی نبھانے کے چکر میں سگریٹ پینے والے دوستوں کی اس زہر آلود ، مہلک اور جان لیوا پیشکس سے انکا ر نہیں کر سکتا۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی دوست پیار محبت سے زہر بھی پلائے تو دوستی کا تقاضا ہے کہ اُس سے انکار نہ کیا جائے۔ ایسے جہالت زدہ معاشروں میں نام نہاد دوستی کو نبھانے کے لئے سگریٹ کے ایک کش کی کیا بھلا کیا حیثیت ہوگی۔ یوں ایک صحت مند اور ہنستا کھیلتا بچہ ایک خوبصورت اور پیار بھری زندگی کو خیر باد کہہ کر جہالت اور نفرت سے بھری ایک بد بو دار زندگی کے راستے پر چل نکلتا ہے۔ جس کی منزل سوائے رُسوائی اور ناکامی کے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لعنت کو شروع کرنے کی دوسری اور نہایت ہی شرمناک وجہ اس لعنت کے شکار بچوں کے والدین ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچے عموماً اپنے والدین کو اور بالخصوص اپنے والد کو اپنی زندگی کا ہیرو سمجھتے ہیں۔ اور چھوٹی عمر سے ہی اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے اور اُ س کے ہر فعل کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بچے نہ صرف نفساتی سکون محسوس کرتے ہیں بلکہ اِ س سے وہ والدین کی فرمانبرداری اور ذہنی ہم آہنگی کا فطری بھی فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر خدا نہ خواستہ کسی بچے کے والد(ین) سگریٹ یا کسی بھی دوسرے نشے میں مبتلا ہیں، تو قدرتی طور پر ہی اُن کے بچے بھی اس لعنت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ چونکہ والد(ین) اس فعل کو ایک جائز فعل سمجھ کر سر انجام دے رہے ہوتے ہیں، لہذا وہ لا محالہ اپنے بچوں کو نہ صرف اس لعنت میں مبتلا ہونے سے بچا سکتے ہیں اور نہ ہی اُ ن کو اس کے بُرا ہونے اور اس کے نقصان دہ ہونے کے حوالے سے نصیحت کر سکتے ہیں۔ یوں وہ اپنے پھول جیسے معصوم بچوں کو چاہتے ہوئے بھی اس گندگی سے دور نہیں کر سکتے ، اور جب یہی بچے جب ہوش سنبھالتے ہیں اور جب معاشرے کے ایک ذمہ دار شہری بن جاتے ہیں تو تب اُن کو احساس ہوتا ہے کہ کس طرح اُن کے اپنے پیاروں نے اپنے ہاتھوں سے اُن کی زندگی کو تباہ کیا اور اُن کو نحوست سے اس دلدل میں پھنسایا۔ یہی وقت ہوتا ہے جب بچے نہ صرف اپنے والدین کے ساتھ بغاوت پر اُتر آتے ہیں بلکہ وہ اپنا غصہ اور بدلہ معاشرے کے دوسرے لوگوں کو بگاڑ نے اور اپنے ساتھ شامل کر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ اُن کے خیال میں معاشرہ ہی ان سب باتوں کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ جبکہ وہ یہ نہیں سوچتا کہ وہ اور اُس کے والدین بھی اسی معاشرے کی ایک اکائی تھے ، ہیں اور رہے گے۔ حالانکہ اس زیادتی اور بُرائی کا بدلہ لینے کا ایک اور طریقہ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ یہ کہ بجائے خود کو اور دوسرے لوگوں کو نشے کے اس دلدل میں پھنسایا جائے بلکہ آپ جیسے دوسرے معصوم بچوں کو نوجوان نسل کو اس لعنت سے بچانے میں اپنا کردار ادا کیا جائے۔ یوں آپ کے گناہ کا کفارہ بھی ادا ہوگا۔ اور دوسرے معصوم نوجوان بھی اس عفریت سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ آج ہم سب کو مل کر اپنے آپ سے یہ وعدہ کرنا ہوگا ، چاہے ہم میں سے کوئی سگریٹ نوشی کے لعنت میں مبتلا ہے یا نہیں، اس بات سے قطع نظر ہم اپنے آپ ، اپنے گھر/خاندان سے اور اپنے معاشرے سے اس لعنت کو ختم کرنے کو ایک جہاد سمجھ کر شروع کریں۔ اگر ہم آج اپنے آپ کے ساتھ یہ تہیہ کریں ہم اس عفریت کو معاشرے سے ختم کر کے دم لیں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ بھی ہماری اس نیک کاوش میں ساتھ دے گا، اور ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔ پاکستان میں تمباکو نوشی کے روک تھام کے لئے قوانین بھی موجود ہیں، مگر جب تک انسان خود ہی اس برُی عادت سے نجات حاصل کرنے کا تہیہ نہ کرے ، کسی بھی قسم کے قانون کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر ہم اس مہم کا آغاز سب سے پہلے اپنی ذات سے کریں، پھر خاندان ، اُس کے بعد گاؤں اور آہستہ آہستہ معاشرے اور پورے ملک سے اس لعنت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس عذاب اور لعنت سے بچنے کے لئے ہر فرد کو اپنا حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپنے حصے کا دیا ہر ایک کو جلانا ہوگا۔ آج ہی ارادہ بدلناہوگا۔ انسانیت سے محبت کرنا ہوگا۔ زندگی سے پیار کرنا ہوگا۔ سگریٹ سے انکار کرنا ہوگا۔

مزید دریافت کریں۔