ہنزہ نیوز اردو

بے عملی اور جمود کی وبا

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

فطرت کی طبیعت میں کہیں بھی ٹھراو نہیں ہے۔ بہتے پانی کی رفتار اگرچہ  یکساں نہیں ہوتی،کہیں جوئے بار کی صورت میں اپنی شوریدہ سری اور جوش وخروش کا مظاہرہ پتھروں سے سر ٹکرا کر کرتا ہے ،کہیں کناروں  پراپنی بے قرار لہروں کے تھپیڑوں سے ہنگامہ برپا کرتا ہے ۔کسی جگہ جھرنا بن کر اپنی مدہر آواز کا جادو جگاتا ہے اور کہیں بے صدا ہو کے بہتا ہے لیکن اس کی گہرائیوں میں جو شور موجزن ہوتا ہے اسے ہر کوئی نہیں سن پاتا۔ خاموش بہتے سمندر میں بلا خیز ہنگامہ ارائیوں کی کئی داستا نیں پوشیدہ ہوتی ہیں ۔سر بہ فلک پہاڑوں کی صدائے بے آواز کتنے لوگوں کے لئے ترقی کا سندیسہ لئے آتی ہے تو کوئی ان سے عزم وحوصلے کی کہانی خاموش سرگوشیوں میں سن لیتا ہے۔گھٹاوں کی با معنی جنبش ہو یا باد بہاری کے جھونکوں کی کومل سرسراہٹ،انسان کو یقین و ایمان اور استقلال کی دولت سے مالامال کرنے کے لیئے کافی ہے۔کائنات کی کسی تخلیق کو سکون وسکوت میسر نہیں۔ ہر صبح سورج نئی تازگی اور یقین سے آتا ہے جیسے کسی کے نقش پا کی تلاش میں ہو،چاند اپنی منزل کی جستجو میں کتنے ہی صحراوں کی خاک چھانتا اور بیابانوں میں گھومتا رہتا ہے جیسے کسی بھی لمحے وہ اپنے مطلوب کو پا لے گا۔ حرکت و عمل کا درس کائنات کے ہر گوشے اور زمانے کے ہر سمے میں  چھپا ہوا ہے۔ سمجھنے والے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اسے اپنا رہبر بنا لیتے ہیں ،لیکن کتنے ہی ہم میں سے ایسے ہیں جو حد نظر تک پھیلی ہوئی امید کی ان کرنوں اور منزل کے نشانات کو نہیں پہچان پاتے۔ حالانکہ یہی عناصرایمان کے لیئے دل کو روشن کرتے ہیں ۔جوش ملیح آبادی نے کہا ہے۔۔۔۔

ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیئے

اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی

گویا حرکت و عمل ہی خالق کا عرفان حاصل کرنے اور مخلوق کو سمجھنے میں مددگار ہوتی ہے جس کے لیئے سکوت سے زیادہ تڑپ اور سکون سے زیادہ تگ ودو کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال کی نظر میں بھی قرار موت کے مترادف ہے۔ جو انسان محنت سے جی چرا کر تن آسانی میں مبتلا ہو جائے ،عمل سے فرار اختیار کرنے کے طریقے ڈھونڈے ،اپنے متلاطم جذ بات کو تھپک کر سلا دے تو اس کا صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹنا یقینی ہو جاتا ہے ۔وجود عالم اور وجود کائنات میں کہیں بھی بے عملی کا ثبوت نہیں ملتا ۔ روز ازل سے ہی کارخانہ قدرت جس ذمہ داری کی انجام دہی میں لگا ہوا ہے اس میں پل بھر کے لیئے بھی تعطل یا جمود کا کوئی لمحہ نہیں آیا ،زندگی کا اصل جوہر اس کی روانی میں پوشیدہ ہے جس انسان کے لیئے اس دنیا کی تخلیق ہوئی اسے کیسے زیب دے گا کہ وہ ہاتھ پاوں توڑ کر بیٹھے،یا کاہلی کا شکار ہو کراپنے مقصد سے بے خبر ہو جائے ۔دنیا جتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے ۔ذہن انسانی نئی دنیاوں کی کھوج میں لگا ہوا ہے کائنات کے سینے میں دفن رازوں کو افشا کیا جا رہا ہے تو کچھ ایسے بھی نوجوان دیکھنے کو ملتے ہیں جن کی زندگی کا مقصد دریا کے کنارے کسی پتھر سے ٹیک لگا کر بےہودہ سی وڈیو دیکھے  یا چنار کی ٹھنڈی چھاوں میں بیٹھ کر تصور جاناں میں ڈبکیاں لگائے غریب والدین نے خون پسینے کی کمائی سے موبائل خرید کر دیا ہوتا ہے کہ میرا لعل آن لائن کلاس لے رہا ہے اس کی پڑھائی کا کوئی نقصان نہیں ہونا چاہییےلیکن وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کا ”لعل”  لال دوپٹے کے سپنوں میں کھویا ہوا ہے۔ جو وقت پڑھنے لکھنے اور مستقبل سنوارنے کا ہوتا ہے وہ ٹک ٹاک  ویڈیو اور وٹس ایپکی جادوئی دنیا میں کھو کر برباد کر رہا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی کہیں یا نسل نو کی سیاہ نصیبی کہ ان کا مستقبل بے یقینی کے سمندر میں ڈانواں ڈول کشتی کی مانند ہچکولے کھا رہا ہے۔آنے والے وقت اور درپیش حالات کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا  لیکن ا پنی آنکھوں سے نوجوانوں کے برباد ہوتے مستقبل کو دیکھ کر دل رنجورہے۔ محنت کرنے کا وقت ویڈیو گیمز کی نذر ہو رہا ہے اور بقیہ اوقات کھانے پینے اور سونے میں بیت جاتے ہیں۔ ان میں بے عملی اور جمود کی ایسی وبا پھوٹ پڑی ہےجس کا علاج ضروری ہے،ورنہ خاکم بدہن اپنے اجداد کے نام پر کلنک کا ٹیکہ ثابت ہونے کا اندیشہ ہے۔ آنے والے دنوں سے امید وابستہ کرنا مثبت سوچ کی علامت سمجھی جاتی ہے لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔اس صورت حال سے سب واقف ہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر سب کو ہے لیکن عملا کوئی بھی کچھ نہیں کر پا رہا ،کوئی ایسا طریقہ کار اپنانے کی اشد ضرورت ہے کہ نوجوان اپنی زندگی کو با مقصد کاموں میں لگا دیں اپنے سامنے ایک نصب العین رکھیں اور اس کے حصول کی کوشش میں لگ جائیں تا کہ ہم انے والے زمانے کی مشکلات کو اپنے زوربازو سے آسانیوں میں بدل سکیں ۔

 

21۔7۔2

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ