ہنزہ نیوز اردو

بے رحم۔۔۔۔سیاست

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

ضلع گانچھے خطہ گلگت بلتستان کا ایک خوبصورت سیاحتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ دفاعی اور سیاسی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ضلع کے خوبصورت سیاحتی مراکز میں مختلف وادیاں سرفہرست ہیں۔دفاعی نقطہ نگاہ سے سیاچن جیسے اہم سرحدی محاز اسی ضلع میں ہے۔ساتھ ہی شیوک سیکٹر کا بارڈر بھی گانچھے کی اہمیت کو بڑھتا ہے۔سیاسی حوالے سے قانون ساز اسمبلی کی تین جنرل نشستیں جو کسی بھی حکومت سازی میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔گانچھے سے منتخب ہوتے ہیں۔گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں ضلع کے تینوں نشستوں سے وفاق میں حکمران جماعت مسلم لیگ(ن)کامیات ہوئی جن میں موجودہ صوبائی وزراء حاجی ابراہیم ثنائی، محمد شفیق، غلام حسین ایڈووکیٹ شامل ہیں۔
گلگت بلتستان کے دیگر اضلع کی طرح اس ضلع میں عوامی نمائندوں کی الیکشن مہم کے بعد منظر عام سے غائب ہونے والے حکمرانوں کی وی آئی پی پروٹوکول سرکاری دفاتر میں آفیسر شاہی کی بادشاہت بیوروکریسی کی ذاتی عیش و عشرت نے گڈ گورننس محض ایک خواب کی شکل ہوکر رہ گئی ہے۔ضلع میں جہاں بے پناہ مسائل ہیں وہاں تعلیم، صحت اور انفراسٹریکچر نمایاں مسلہ ہے۔کئی قصبوں یا دیہات میں پرائمری، کئی جگہوں پر پرائمری کے بعد مڈل اور کہیں مڈل کے بعد ہائی سکول کے نہ ہونے سے سالانہ سینکڑوں طلبہ و طالبات علم کی روشنی حاصل کرنے سے محروم ہورہے ہیں۔صحت کے ناکافی سہولیات جہاں بہت سارے جانیں ضائع کردیئے ہیں وہاں گائینی کے بنیادی سہولیات یعنی ڈسٹرکٹ ہسپتال خپلو میں گائناکالوجسٹ گزشتہ ادوار میں نہ ہونے سے سالانہ کئی اموات واقع ہورہے ہیں۔
ان حالات اور مسائل کے اپنے جگہ پر اہمیت اور بے پناہ موضوعات پرقلم کشائی کے موقع ہونے کے باؤجود آج کا یہ کالم لکھنے کے بنیادی مقصد ضلع کے سیاست بالخصوص فاق میں برسراقتدار جماعت کے مستقبل کی سیاست پر روشنی ڈالنا ہے۔ دیگر علاقوں کی طرح پی ٹی آئی گانچھے میں فعال گزشتہ الیکشن میں نظرآئی۔2015؁ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔کیونکہ پی ٹی آئی امیدوار اپنے حلقے کے بجائے دو حلقوں سے الیکشن لڑنے والی امیدوار کے طور پر سامنے آئی جس سے دوسرے جماعتوں کے برخلاف پی ٹی آئی کو ہی کافی نقصان ہوا۔پی ٹی آئی کارکنان جو انتخابات سے قبل حرف سوشل میڈیا تک محدود تھا انتخابات کے درمیان اور انتخابات کے بعد پورے ضلع میں متحرک نظر آئی۔انتخابی مہم میں جان تب پڑی اور ضلع میں پی ٹی آئی کارکنان کی حوصلہ میں اضافہ اُس وقت ہوا جب سابق رکن اسمبلی مفتی عبداللہ مرحوم کے فرزند امان اللہ خان پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کرکے مخالفین کو ورعہ حیرت میں ڈال دیا۔
پی ٹی آئی حلقہ دو کے اُمیدوار کی انتخابی مہم امان اللہ خان کے قیادت میں پی ٹی آئی فعال نظر آئی وہی حلقہ 1میں نظریاتی اور پرانے کارکنان کی شب و روز محنت نے مخالفین سے مقابلہ کرکے بھرپور ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش پی ٹی آئی امیدوار کی غلط حکمت عملی نے ناکام بنادیا۔
انتخابات کے بعد امان اللہ خان نے نظریاتی کارکنان کے ساتھ ساتھ یوتھ کوملا کر پی ٹی آئی کو گانچھے میں فعال کرنے کا آغاز کیا جس کا ثمر جلد دیکھنے کو ملا جب اس وقت کے صوبائی چیف آرگنائزر راجہ جلال مقپون نے امان اللہ خان کو ضلع آرگنائزر مقرر کیا۔
پی ٹی آئی کے ضلعی رہنما امان اللہ خان حلقہ 2گانچھے کے ایک اہم سیاسی و مذہبی گھرانے سے تعلق رکھے ہیں۔امان اللہ نوجوانوں میں مقبولیت اور لوگوں کا روایتی سیاستدانوں سے عدم اعتماد کے باعث 2009؁ء کے الیکشن میں مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئی۔2009؁ء کے الیکشن میں انتخابی عذاداری کے باعث امان اللہ کے کاغذات مسترد ہوئے جس کے جگہ پر امان اللہ کے متبادل امیدوار مفتی عبداللہ مرحوم بھرپور انتخابی مہم کے نتیجے میں کامیاب ہوئے۔مفتی عبداللہ اپوزیشن جماعت کے ٹکٹ ہولڈر ہونے کے باؤجود نوجوانوں کی تاریخ ساز جدوجہد کے باعث تاریخ بدلتے ہوئے فتح یاب ہوئے۔ مفتی عبداللہ کے وفات کے بعد کچھ عرصے سیاست سے کنارہ کش رہنے کے بعد امان اللہ کو اس کی انقلابی سوچ اور عمران خان کے کرپشن کے خلاف ویژن نے مسلم لیگ کو خیر آباد کہنے پر مجبور کرتے ہوئے پی ٹی آئی میں شمولیت کا فیصلہ کرنا پڑا۔راقم کے امان للہ سے پرانی سناسائی کے ہونے کے باعث یاد پڑتا ہے جب امان اللہ کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے وقت اس وقت کے وزیر امور کشمیر چودھری برجیس طاہر نے بے پناہ پیشکش کی مگر امان اللہ کے ارادے میں تبدیلی نہیں لاسکی تھی۔اب پھر کچھ ذکر کرتے ہیں 2015؁ء کے الیکشن کے بعد کے حالات کا جب پی ٹی آئی کے دو حلقوں سے سامنے آنے والی امیدوار اپنے حلقوں سے غائب ہوئے تو پی ٹی آئی رہنماؤں جن میں امان اللہ خان سرفہرست ہیں کارکنان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے نظر آئے اور مسلم لیگ کے انتقامی سیاست کے بھرپور مقابلہ کیا۔امان اللہ پہلے ضلعی آرگنائزر پھر ضلعی صدر مقرر ہونے کے بعد مزید متحرک نظر آئے اور کارکنان کے ساتھ مل کر ایک ہی دن تینوں سب ڈویژن میں صوبائی صدر کے موجودگی میں بڑے جلسے کرکے ضلع کے سیاست میں پی ٹی آئی کے وجود کا یقین دلایا۔تھگس، بلغار واور چھوربٹ میں ہونے والے جلسے، کنونشن بلاشبہ امان اللہ کے محنت کا ثمر تھا۔پارٹی کے ضلعی ہو یا تحصیل سطح کے دفاتر بنانے کے لئے امان اللہ آگے آگے نظر آئے۔پارٹی قائدین کے حکم پر برفباری کے باؤجود یوم یکجہتی کشمیر 5فروری کو پارٹی سطح پر تقریب منعقد کروائی بلاشبہ یہ سرگرمیاں امان اللہ کی پختہ سیاسی کارکن ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ان حقائق کے ذکر ہونے کے بعد پی ٹی آئی جماعت کا دوسرا رخ بھی ذرا ملاحظہ فرمائیں۔وہاں اسلام آباد میں کچھ رہنما ضلع کے بجائے وہاں متحرک نظر آئے اور وفاقی قائدین کے منظور نظر قرار پائے۔امان اللہ جیسے کارکن مرکزی سیکریٹریٹ تک رسائی نہ ہونے سے پچھلی صفحہ میں نظر آیا۔شاید امان اللہ جیسے کارکن ضلع میں پارٹی فعال کرنے کے بجائے اسلام آباد میں بیٹھ کر مرکزی قائدین کے گرد چکر لگاتے تو آج کچھ مختلف حالات ہوتے۔کیونکہ مرکز والے اس کی بات سچ مانتے ہیں جو مرکزی دفتر پہنچ جاتے ہیں۔بہر حال سیاست ایک بے رحم کھیل ہے جس میں حقیقی کارکن قربانی کا بکرا بن جاتا ہے جیسے کہ پی ٹی آئی میں ہم کو دیکھنے کو ملا کہ جب بھی پارٹی کے جانب سے کوئی کمیٹی بنتی ہے حلقہ میں کرنے والے کے بجائے ”رسائی“ والے ہی کمیٹی میں شامل ہوتے ہیں۔کارکن کی اسلام آباد تک رسائی نہ ہونے سے ان کی محنت رائیگاں ہوجاتی ہے۔اُس کے زندہ مثال امان اللہ کی شکل میں نظر آتی ہے جب2009؁ء میں جن کوامان اللہ نے الیکشن میں شکست دی تھی وہ پارٹی میں مرکزی قائد ین سے شناسائی کے باعث آگے نظر آرہے ہیں۔
پی ٹی آئی موجودہ حالات میں ضلع گانچھے میں مضبوط جماعت سمجھی جارہی ہے البتہ ضلعی تنظیم سازی اور انتخابی ٹکٹ کا معاملہ ایسا ہے جس میں غلط فیصلہ ہونے کی صورت میں پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان کے خدشات ہیں۔پی ٹی آئی کی سابقہ تنظیم بہت متحرک تھی جس کی سربراہی امان اللہ کررہے تھے۔یہی تنظیم حاجی اقبال، سخاوت علی جیسے قدآور شخصیت کو پارٹی میں شامل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
پی ٹی آئی کی ضلعی تنظیم سازی میں قائدین کو حقداروں کے حق پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے پارٹی عہدے پارٹی کارکنان کے لئے ایک اعزاز ہوتا ہے لہٰذعہدے کارکنان کو اپنا ہی سیاسی جماعت کے لئے سود مند ہوتا ہے۔
آخر میں اس امید کے ساتھ کہ پی ٹی آئی قیادت متحرک قدآور، نظریاتی کارکنان کو ساتھ لے کر تنظیم سازی کرکے کارکنان کا اعتماد بحال کرانے میں کامیاب رہینگے اور ماضی کے تجربات کو دہرانے سے قاصر رہیں گے

مزید دریافت کریں۔