ہنزہ نیوز اردو

بھوپ سنگھ پڑی

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

 

بھوپ سنگھ کا نام  پڑھ کر عام قارئین جن کو  گلگت بلتستان  کی تاریخ  سے واقفیت نہیں   حیران  نہیں   تو ان کے ذہن میں  یہ  سوال ضرور ابھرے گا کہ کون  تھا یہ بھوپ سنگھ    اور  شینا سے نا بلد اردو قارئین  ضرور پڑی  کے لفظ  کے معانی  جاننے   کی چاہت   رکھینگے۔ایک بات  جس کا  مجھے یقین ہے وہ یہ کہ جن حضرات نے شاہراہ قراقرم  موجودہ سی پیک    سے سفر کیا ہے   یقیناً انہوں نے بھوپ سنگھ پڑی  دیکھا بھی   ہو گا  اور اس کے متعلق پڑھا بھی ہوگا۔جی ہاں بڑی ہی تاریخی اہمیت کہ جگہ  ہے جو شاہراہ قراقرم  (سی پیک) کے اوپر  گلگت کے قریب مناور گائوں سے تھوڑا   آگے واقع ہے ۔کیا ہوا تھا یہاں    یہی بات جاننے کے لئے ماضی کی طرف تو مڑنا پڑیگا  اور  لکھی باتوں میں جو دھول پڑی ہے اسے صاف  کئے بغیر    نہ تو ہمیں بھوپ سنگھ نظر آئیگا اور نہ ہی  گلگت بلتستان کا پہلا قوم پرست  لیڈر ۔پہلا قوم پرست  کا نام بھی شائد   قارئین کو چونکا  دے  کہ اٹھارویں صدی میں بھی کیا کوئی قوم پرست  موجود  تھا؟۔یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ  کچھ افراد نے  قوم پرستی کو الٹا معانی پہنایا ہے۔ویسے تو کوئی بھی پرستی   اچھی  نہیں مثلاً  مذہب پرستی ،شخصیت پرستی، مفاد پرستی، خوش آمد پرستی، تعصب  پرستی -مسلمانوں کے لئے تو یہ پرستیاں زہر  ہلائل ہیں  اسلام میں کسی پرستی کی گنجائش نہیں  لیکن  برخلاف اس کے   ہمارے اندر  یہ تمام خرافات  بدرجہ تم موجود ہیں ۔اس کے باوجود بھی بحثیت مسلمان  ہم سب  آپس میں بھائی بھائی ہیں اسی ناطے  ہم سب کی قومیت  اسلام ہے ۔لگتا ہے کہ قومیت پرستی کے حوالے سے  بات کسی اور طرف جا رہی ہے  ۔جن باتوں کا ذکر اوپر ہوا ہے سب بحث طلب باتیں ہیں   اگر ان کی تفصیل میں جائیں تو بات بہت پھیل جائیگی  بس اتنا بتا دوں کہ  راجہ گوہر آمان کے بارے   قوم پرست کا لفظ   علاقے اور وطن سے محبت کے حوالے سے  درج کیا گیا ہے۔ اپنے وطن  اور علاقے سے محبت کرنا  کوئی جُرم نہیں  بلکہ یہ ایک اعزاز کی بات ہے  اور شائد اسی کو محب وطن کہا جاتا ہے  اب اس کے الٹے معانی پہنائے جائیں تو اس میں  کسی  کا کیا قصور۔ بات چل رہی تھی  راجہ گوہر آمان کی  جو   خوش وقت خاندان  کا چشم و چراغ  تھا جس کی ہیبت اور بہادری اور اپنے  وطن دردستان   سے محبت و چاہت  کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔راجہ گوہر امان نے ڈوگروں کے خلاف  کئی لڑئیاں لڑیں  اور دردستان کی سرحدوں کو  کوہستان اور سکردو  تک  پھیلایا ۔لیکن تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو  یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اس  قوم پرست لیڈر سے یہاں کی  رعایا  صرف اور صرف  مذہبی  بنیادوں کے باعث   نالاں رہی ۔تفصیل اس کی   طویل ہے  اس کو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں   اور نہ ہی یہ  کالم  اس کا متقاضی ہو سکتا ہے۔بس اتنا  لکھنا کافی ہوگا کہ یہ مرد مجاہد ایک صحیح راسخ العقیدہ مسلمان تھا جب تک زندہ رہا  ڈوگروں کی مجا ل نہ ہوئی کہ وہ گلگت کی راجدھانی پر قبضہ  کر سکیں ۔بات سے بات نکلتی ہے اور ممکن ہے کہ  باتوں باتوں میں  یہ کالم اتنا لمبا ہو جائے  کہ  عنوان    کہیں اور رہ جائے اور ہم کہیں اور طرف  نکل جائیں اس لئے سیدھے سیدھے  عنوان کی طرف آتے ہوئے   یہ بتاتا چلوں گلگت بلتستان  پر  خالصہ سرکار  کشمیر  کا   اثر رسوخ اور قبضہ سکردو  1840 میں اور استور اور گلگت پر 1842 سے ہی  تھا  ۔جبکہ معاہدہ امرتسر  1846 میں  مابین انگلش سرکار اور  راجہ گلاب سنگھ  کے درمیان  طے پایا  جس کے تحت  ہی  ریاست  جموں و کشمیر  وگلگت بلتستان  کی جدید  ریاست وجود میں آئی ۔اس ریاست کے وجود میں آنے کے بعد   تاریخ  میں ہمیں  اس خطے  میں پے درپے   کئی لڑائیوں کا تذکرہ ملتا ہے  ۔وہ لڑائیاں بھی جس میں  گوہر آمان  اورڈوگرہ آمنے سامنے  ہوئے اور وہ لڑائیاں بھی  جو گوہر امان کے بعد  لڑی گئیں۔  راجہ گوہر آمان نے ڈوگروں  سے  پہلی لڑائی    1852 میں اس وقت لڑی جب  راجہ کریم خان کا کمسن فرزند  محمد خان ڈوگروں کے زیر نگرانی  گلگت کا حکمران تھا۔یاد رہے جب  ڈوگروں نے  1842 میں گلگت وزارت پر قبضہ کیا تھا  اس وقت  دو سکھ جرنیل  سانت سنگھ  گلگت وزارت میں  ڈوگرہ  فوج کی کمان کر رہا تھا اور دوسرا سکھ جرنیل بھوپ سنگھ  وزارت استور میں  ڈوگرہ فوج کا انچارج تھا۔چلیں جی بھوپ سنگھ کون تھا اس کی بھی وضاحت ہوگئی۔ راجہ گوہر آمان نے  گلگت  مرکز کے حصول  کے لئے    ڈوگرہ  فوج سے  دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ  کیا  اور یوں   یہ  جنگ چھڑ گئی  اس وقت  ڈوگرہ فوج گلگت میں دو جگہوں میں مقیم تھی ایک قلعہ گلگت میں اور دوسری نوپورہ قلعہ میں ۔ اسی دوران  سانت سنگھ جرنیل نے  استور میں مقیم  بھوپ سنگھ سے مدد چاہی لیکن وہ اس کی مدد کو نہ پہنچ سکا  اور سانت سنگھ اور اس کے سپاہی اس جنگ میں کام آگئے  اس جنگ میں  راجہ گوہر امان کا پلہ بھاری رہا  اور وہ گلگت راج دھانی کا حکمران  بن گیا۔راجہ گوہر امان اور  ڈوگروں کے ما بین دوسری لڑائی  1854 میں وقوع پذیر ہوئی    جسے معرکہ چکرکوٹ  کہا جاتا ہے  اس لڑائی  کی تفصیل میں جائے بغیر   اس کے بارے اتنا لکھنا کافی ہوگا کہ  استوریوں نے چلاسیوں   کے مظالم  کے خلاف  مہارجہ  گلاب سنگھ  سے درخوست  کی کہ  استوری آپ کی رعایا ہے  ان کی مدد کی جائے ۔داریل اور چلاس کے لوگوں نے راجہ گوہر آمان کا ساتھ دیا  اور  یہ جنگ بھی ڈوگرہ ہار گئے ۔ڈوگرہ اور راجہ گوہر آمان   1855 میں اس وقت  آمنے سامنے ہوئے جب ڈوگرہ 1854 کی شکست کا بدلہ لینے استور پہنچے اور وہاں سے دریا عبور کرکے  نیلی دار چکرکوٹ پہنچے  چونکہ یہ جنگ نیلی دار چکرکوٹ میں لڑی گئی  اس  لئے اسئ معرکہ نیلی دار  چکرکوٹ کہا جاتا  ہے ۔ اس جنگ میں بھی داریل اور چلاسیوں نے راجہ گوہر امان کا ساتھ دیا  اور وہ کامیاب  رہا۔1835 سے 1860 تک جب  ہم تاریخ کھنگالتے ہیں تو  ہمیں  چار معرکے ملتے ہیں  اور ان ادوار میں کبھی ڈوگرہ اور کبھی راجہ گوہر آمان    گلگت کی راجدھانی  میں حکمرانی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ گوہر آمان اور ڈوگروں کے درمیاں  آخری معرکہ    مناور   پڑی  میں ہوا۔  آگے جانے سے پہلے پڑی  کا بھی تذکرہ ہوجائے  پڑی  شینا  زبان میں  تنگ گھاٹی اور خطرناک  جگہ کو کہا جاتا ہے  جہاں سے  آسانی سے گزرنا   محال   ہو۔  یہ پڑی  جو 1857 سے پہلے مناور پڑی کہلاتی تھی  1857  کی جنگ  راجہ گوہر امان اور  بھوپ سنگھ جرنیل کی سرکردگی میں ڈوگرہ فوج  کے درمیان    مناور پڑی میں لڑی گئی   جس میں ڈوگرہ  جرنیل بھوپ سنگھ  اور  اس کی فوج کو راجہ گوہر امان  کے سپاہیوں نے   اس تنگ گھاٹی میں گھات لگا کر  موت کے گھاٹ اتار دیا   اس معرکہ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ  اس میں راجہ گوہر آمان کا ایک بھی سپاہی  نہ زخمی ہوا اور نہ ہی  ہلاک اس جنگ اور معرکہ کی نسبت سے اس پڑی کا  نام بھوپ سنگھ پڑی مشہور ہوا ۔ راجہ گوہر آمان  اپنی طبعی موت مرا    اس کے بعد  مہارجہ کشمیر  اور انگریزوں کی حکمت عملی کے تحت ہی   اس خطے میں مزید لڑائیاں لڑی گئیں ۔اسی حکمت عملی کے تحت  ہی  مہارجہ نے  پولیٹکل علاقہ جات  جس میں  ہنزہ  نگر پونیال اشکومن  یاسین    گوپس   اور داریل تانگیر اور چلاس کے علاقے  پٹے پر دئے تھے۔۔یاد رہے کہ  گلگت بلتتستان  پورے کو  لیز پر نہیں دیا گیا تھا  ۔جیسا  کہ  کتابوں اور کچھ دانشور یا لکھاری حضرات    لکھتے ہیں  ایسی ہی غلطی مجھے بھوپ سنگھ پڑی میں بنی یاد گار  میں بھی دکھائی دی جہاں  لڑائی کا سال 1852 لکھا گیا ہے جبکہ یہ لڑائی 1857 میں ہوئی تھی  اسے بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔اب  ان لڑائیوں کی حکمت عملی کا تذکرہ     لکھنے بیٹھ جائیں تو  یہ کالم شائد اپنی افادیت  کھو دے اسلئے صرف اس بات پر اکتفا کرتے ہوئے کہ اس کے پیچھے   اس خطے  سے ملحقہ ملکوں کی سرحدوں   کی افادیت  اور دیگر عوامل تھے  جو آج بھی اتنے ہی اہم ہیں  جتنے اس وقت تھے ۔۔۔۔

 

 

مزید دریافت کریں۔