انسان جسے اللّٰہ تعالٰی نے اشرف المخلوقات بنا کر پیدا کیا ، انسان وہ ہے جس کو اللّٰہ تعالٰی نے دنیا بھر میں موجود تمام مخلوقات سے افضل قرار دیا ہے ، دیکھیں اللّٰہ تعالٰی نے انسان کو کتنا بلند مقام سے نوازا ہے ، سب سے بڑھ کر اللّٰہ تعالٰی نے انسان کو دماغ وعقل ، سے نوازا ہے جس کو استعمال کر کے انسان دنیا اور آخرت کی کامیابی اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے اور یہی انسان ، اپنے عقل ودماغ کو منفی استعمال کر کے بد سے بدتر ہوسکتا ہے ، جو کہ حیوان سے بھی بدتر اور گر سکتا ہے ۔
بدقسمتی سے آج کل ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی انسان بن کر گھوم رہے ہیں جو اصل میں درندے ہیں جو انسان صرف جسم اور ظاہری طور پر ہیں ، لیکن ان کے اندر انسان نہیں بلکہ ایک درندہ ، سفاک جانور ہوتا ہے جو انسان کے روپ میں اس سے وہ کام کرواتا ہے جو انسانیت کا سر شرم سے جک جاتا ہے ، جو لفظ انسان کی بھی توہین ہے ، ایسے شخص کو انسان کہتے ہوئے انسانیت بھی شرما جاتی ہے ، کہاں اشرف المخلوقات اور کہاں انسان کے روپ میں درندے ۔
پاکستان بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں ہونے والے علاقے کا نام قصور ہے جہاں ، سب سے ذیادہ معصوم بچیوں اور بچوں کو اپنے ہوس کا نشانہ بنا کر قتل یا کچرے میں پھینک دیتے ہیں ۔ اب یہ ہماری بدقسمتی کہیں یا کچھ اور کچھ سالوں سے ہمارے گلگت بلتستان میں بھی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کا نہ روکنے والا سلسلہ جاری ہے ، آئے روز یہ شرمناک خبریں اخبار اور سوشل میڈیا کا زینت بنتی ہیں ، کہ فلاں نے فلاں کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور وہ آزاد گھوم رہا ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے ؟ کیوں ہمارے معاشرے میں بچوں کو جینے نہیں دیا جارہا ، آخر نوبت یہاں تک کیوں اور کیسے آئی ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ زیادتی کر کے اپنی حوس پوری کرتے ہیں ، کیا ایسے لوگوں کے دلوں میں اللّٰہ تعالٰی اور قانون کا خوف موجود نہیں ، کیا وہ یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ وہ جس بچے کی زندگی تباہ کر رہے ہیں اسی عمر کے ان ہی کے بھی بچے یا بھائی بہن ہیں ، آخر کیوں گلگت بلتستان کو بھی قصور جیسا بنایا جارہا ہے ؟ آخر کب تک ایسے خبروں سنتے رہینگے ؟ کب کسی ایک کو پھانسی کی سزا دی جائے گی تاکہ وہ سب کے لیے عبرت کا نشان بنے ، آخر ہم کس ملک اور کس علاقے میں رہ رہے ہیں ، کیا ہم اسلامی ملک میں رہ رہے ہیں ، کیا یہ ہے اسلامی ملک جو اسلام کے نام پر بنا تھا ؟ معصوم بچوں کو جنسی زیاتی اور اپنے حوس کا نشانہ بنا کر ، اپنے کئے پر شرمند ہونے کے بدلے یہ درندے کمیرے میں ریکارڈنگ کر کے ویڈیوز بنا کر متاثر بچے کو مزید بلیک میل کرتے ہیں اور جب ان کے اندر کا جانور اور درندہ جاگتا ہے تو وہ اس کو پھر اپنا شکار بناتے ہیں اور اپنا ہوس پورا کرتے ہیں ، ان کے یہ کارنامے باہر بتانے کی صورت میں جان سے مار ڈالنے اور ویڈیوز پبلک کی دھمکی دے کر ، خاموش کرواتے ہیں ، اب متاثرہ بچہ کرے تو کیا کرے ؟ ایک طرف دھمکیاں اور دوسری طرف ان درندوں کے ہوس کا نشانہ اور یہ معصوم اپنی عزت اور مزید ہوس کا نشانہ بنے سے بچنے کے لیے اپنی جان لینے پر مجبور ہوتے ہیں ، اسی قسم کا ایک درناک واقع گلگت بلتستان کے ضلع سکردو میں پیش آیا ایک سبزی فروش کے نابالغ بیٹے کو چند شرپسند اور انسان نامے درندوں نے پانچ سے چھ ماہ اپنی ہواس کا نشانہ بناتے رہے تھے ، کچھ دن قبل بچے نے خودکشی کی کوشش کی جسے اھلخانہ نے ناکام بنائی اور بچے کی جان بچائی اور خودکشی کی کوشش کی وجہ معلوم کیا تو بچے نے ہوش اڈھانے والے اپنے اوپر ہونے والے ظلم وزیادتی کا پول کھول دیا ، بچے کا نام اور والد کا نام آپ لوگوں کے سامنے پیش کر کے میں مزید ان متاثرین کو اذیت میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی ہوں البتہ ان انسان نما جانوروں اور وحشی درندوں کے نام آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ ان لوگوں نے جو کام کیا ہے اس کے باوجود بھی ان کے نام چھپانا درست نہیں ، (1) مظفر عباس (2 ) تجمل حسین( 3) مبارک علی ، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے معصوم بچے کو گینگ ریپ کا نشانہ بناتے رہے اور بچے سے پیسے اور سامان وصول کرتے رہے ، متاثرہ بچے کے والد کا ڈی آئی جی پولیس ضلع سکردو کو لکھے گئے درخواست میں بتایا ہے کہ ملزمان پیسے والے ہیں ، اس لیے اس کے ساتھ انصاف کیا جائے ، یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ہمارے معاشرے میں پیسوں پر ناجائز کام بھی جائز کروایا جاتا ہے ، اور غریب کی کوئی خبر تک نہیں پوچھتا ہے اب یہ ہم سب کی زمہ داری بنتی ہے کہ متاثرین کے ساتھ کھڑے ہوں اور متاثرین کی آواز بنیں اور اس غریب والد کی فریاد اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران تک پہنچایا جائے تاکہ ان کے ساتھ انصاف ہو اور ملزمان کو ان کے کئے ہر سخت سے سخت سزا دیا جائے ، یاد رہے اس قسم کے واقعات میں سے اکثر غریب متاثرہ بچوں کے اھلخانہ انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں اور انصاف نہ ملنے کی وجہ سے خاموش بھٹتے ہیں ، اور اکثر والدین عزت بچانے کے سوچ میں خاموش رہتے ہیں جس سے ان درندوں کو مزید حوصلہ اور قانون کو مذاق سمجھتے ہیں اور پھر کسی معصوم کو اپنا ہدف بناتے ہیں ۔ لیکن کچھ دن پہلے عدالت نے دس سالہ بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کے ملزم کو 7 دنوں کے اندر کیس کا فیصلہ کر کے ملزم کو 35 سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنا کر ایک امید پیدا کی ہے کہ ابھی قانون زندہ ہے ابھی امید زندہ یے ۔
لیکن آئے روز اس قسم کے بدفعلی کے واقعات رونما ہونے کے وجوہات کیا ہیں ؟ میری نظر میں ایمان کی کمزوری ، نماز سے دوری ، خوف خدا دل میں نہیں ہونا ، اداروں کی کمزوری ، سوشل میڈیا اور خاص کر انٹرنیٹ کی رسائی ، غیر اخلاقی مواد اور غیر اخلاقی ویب سائٹس تک بآسانی رسائی اور والدین کی عدم توجہ سے بچہ بگڑنے لگتا ہے اور آخر کار وہ غلط راستے پر چلنا شروع کرتا ہے اور ایسے واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں جو کہ کسی بھی معاشرے کے لیے بہت خطرناک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔