ہنزہ نیوز اردو

امیدیں سب دم توڑ گئیں

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

دنیا کے معاشرتی زندگی میں جب بھی کوئی نئی شے ہاتھ لگتی ہے تو اس سے انسان بڑی خوشی اور مسرت محسوس کرتا ہے ،،ایسے میں احباب اور دوستوں کے مبارک باد کے پیغامات بھی ان خوشیوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں ۔اسے خیر و عافیت و برکت کی دعا بھی تصور کیا جاتا ہے ۔ دعا کوئی معمولی چیز نہیں ہوتی ۔دعا ایک ایسی طاقت ہے جو عرش کو بھی ہلا دیتی ہے دنیا کی طاقتوں میں سب سے زیادہ طاقتور مسلمان کی دعا ہوتی ہے۔ پردے میں چھپی ہوئی اس طاقت میں اتنا اثر ہے کہ کوئی رکاوٹ اسے روک نہیں سکتی اور اپنا فاصلہ سکینڈوں میں طے کرتی ہے ۔دعا کرہ ارض کی کشش ثقل کی طرح ایک حقیقی اور واقعاتی طاقت ہے ۔اللہ نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہے ۔ جب ہر قسم کی تدبیریں اور دوا ناکام اور بے سود ہو جاتی ہیں تو ایسی صورت میں عاجزانہ دعا سے سارے اندھیرے اور غم کے بادل چھٹ جاتے ہیں ۔قران اور حدیث کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایسے بہت سارے معجزاتی واقعات بھرے پڑے ہیں ۔نوحؑ کی دعا کو ہی دیکھیں جس نے عالم دنیا کو ملیامیٹ کر دیاتھا۔پیغمبر خدا کے ساتھ چند ساتھیوں کے علاوہ تمام انسان صفحہ ہستی سے مٹ چکے تھے۔اور پھر دنیا نوحؑ کے تین بیٹے حام،سام،اور یافیث کے اولاد سے آباد ہوئی ۔ شینا میں دعا کے بارے ایک محاورہ ہے تُر مکئے تن۔۔اس کو اردو میں لغوی معانی پہنائی جائے تو مطلب یہ بنتا ہے کہ بندوق کی گولی جیسی رفتار اور طاقت جیسے بندوق کی گولی تیزی اور ضرب لگاتی ہے ایسے ہی دعا کا اثر ہوتا ہے ۔ ۔پیغمبر اسلام ﷺ ا نے فرمایا ہے کہ مظلوم کے بد دعا سے بچو۔کیونکہ اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات اور مظلوم کے دعا میں پردہ نہیں ہوتا ۔ نیک دعا دنیا اور آخرت میں سکون اور راحت کا باعث بنتی ہیں اور بددعا لینے والے کسی بھی حال میں خوش نہیں رہتے۔اللہ کا شکر ہے کہ ہم سب مسلمان ہیں اور بحثیت مسلمان ہمیں قرانی دعاؤں سے استفادہ حاصل کرنا چاہئے اور اپنے روز مرہ زندگی میں اسے اپنانا چاہئے۔۔مبارک باد کی روایت کا وادی داریل میں کوئی خاص رواج نہیں اور خاص کر نئے سال کی مبارک باد۔داریل کے قدیم روایات کے مطابق یہاں کے لوگ صرف دو مو قعوں پر مبارک با دینے کو اہم سمجھتے ہیں ایک کسی کی ہاں بیٹا پیدا ہوجائے اور دوسرا جب کوئی نئی ٹوپی یا کپڑا زیب تن کرے اس کے علاوہ جب کسی لڑکی کی شادی ہوجائے تو دلھن کو سامنے رکھ کر دعا ئیہ کلمات کہئے جاتے ہیں یاد رہے اس میں دُلہا نہیں ہوتا۔ 2015سال کا اختتام ہوئے ابھی مہنہ ہی گزرا ہے اور اختتامی سال اپنے پیچھے بہت سی یادیں چھوڑ گیا ہے ۔ہماری زندگی کے 365دن کم ہوئے ۔دکھ اور خوشی انسانوں کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے جو لوگ زندہ ہیں ان کی تمنائیں اور امیدیں بھی ان کے ساتھ ہیں ۔۔نئے سال کی شروعات سے ہی ہر مسلمان کا یہ عزم ہونا چاہئے کہ گزرے واقعات کی روشنی میں مستقبل کو سنوانے کی کوشش کریں ۔۔اپنا قبیلہ درست کریں ۔ اخلاقیات کو اپنی زندگی میں جگہ دیں ۔ اور نئے سال مین اپنے لئے کامیابی کی راہئیں تلاش کریں ۔ایک دوسرے کے لئے آسانیاں پیدا کریں ۔اجتماعی سوچ کو پروان چڑھائیں ۔زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لئے راستے ہمیں خود سے تلاش کرنے پڑئینگے ۔یہ وہ راستہ ہے جو خود نہیں بنتا بلکہ بنانا پڑتا ہے۔ انسان اپنے اندام خمسہ کو الٹا استعمال کر کے خود رو رہا ہے۔اور کبھی اپنی کمال سمجھ کر خوشیوں میں ڈوب جاتا ہے۔انسان کا کوئی عمل دخل نہیں کہ وہ ہمیشہ اپنے لئے اچھائیاں وصول کریں۔البتہ یہ اندام خمسہ سے نکلنے والے اعمال پر کامیابی یا ناکامی کا مدار رکھا گیاہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ یہ آپ کا پاور ہاوس ہے اگر یہ درست طریقے سے چل رہا ہے تو پاور یا طاقت صحیح طور سے ملتی رہیگی نہیں تو اس پاور ہاوس سے طاقت کی ترسیل کرنے والی لائنیں ایک ایک ہوکر ناکارہ ہو جائینگی ۔ایسے میں انسان سے صیحح اور غلط کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔حس و اخلاق عدل و انصاف قرآنی احکام کی پیروی انسانی فلاح کی ضامن ہے۔مفکرین کا قول ہے کہ وقت آپ کے پاس امانت ہے انہیں تول تول کر استعمال کریں معلوم نہیں زندگی کی گاڑی کب سٹاپ پر پہنچ کر رک جاتی ہے۔انسان جو بوتا ہے وہ پاتا ہے۔جناب ملک ظفر اقبال لفیٹینٹ جنرل کو ر10 روالپنڈی نے نئے سال کے شروعات میں وادی داریل کو دورے کا شرف بخشا شائد یہ کسی فوجی کمان کے اعلیٰ آفیسر کا اس دور دراز پہاڑی علاقہ کا پہلا دورہ ہے۔ آرمی پبلک سکول کا کے افتتاح کے موقع پر ایک محدود جلسے سے اپنے مختصر خطاب میں گزشتہ شورش میں داریل کے لوگوں کے تعاون کا شکریہ ادا کیا۔ اس دورے کے دوران داریل بھر سے بہت سارے افراد بڑے جوش و خروش سے کور کمانڈر کا خطاب سننے کے لئے جمع ہوئے تھے لیکن انہیں خطاب سننے سے محروم رکھا گیا سوائے چند بزرگوں کے اور لوگ مایوس ہوکر واپس چلے گئے ۔ بقول کور کمانڈر داریل میں جرائم صفر کرنا ہوگا بڑی ہی اچھی اور پیاری بات ہے ۔جنرل صاحب کی اس بات پر داریل تانگیر کے لوگ متفق ہیں ۔ یہاں کے لوگوں کی خواہش اور آواز یہی ہے کہ حکومتی مجرموں کے علاوہ قوم کے اندر بیٹھے ہوئے شرپسندوں کا بھی تعاقب شروع ہو تاکہ شر کے جرثیم نہ پھیل سکیں ۔داریلی عوام نے وزیر اعلیٰ سے بہت کچھ امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے ان کی طرف سے داریل تانگیر کو ضلع نہ بنانے کے اعلان سے لوگوں کی امیدیں دم توڑ گئیں ۔اس پہ کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ہمارے حکمراننوں کی ریت ہی بن چکی ہے وعدے اور آسمان کی قلا بازیاں ملائی جاتی ہیں لیکن عملی کام نہیں ہوتا۔ جو اس ملک کا ایک المیہ ہے ۔
یہ تشنہ لب جماعت جب یہاں پر رک گئی آکر۔
دعا کی دامن داریل نے دونوں ہاتھ پھیلا کر۔
کہ اے داریل کو آتشتاک چہرہ بخشنے والے۔
کرم کر میری حالت پر یہ حکام کچھ نہیں کرتے ۔

مزید دریافت کریں۔