سید حسین شاہ کاظمی وادی غذر کے سپوت ہیں. وہ سول ایوی ایشن میں ملازم ہیں. مگر دفتری امور کیساتھ وہ تین ضخیم کتابیں بھی تصنیف کر چکے ہیں۔ تاریخ سادات شاہان خراسان و بدخشان، تاریخ اسماعیلی نزاری قاسم شاہی سلسلہ امامت اور پرنس کریم آغاخَان میرے امام. موخرالذکر کتاب میں میرا ایک پرانا ارٹیکل بھی شامل کیا گیا ہے اور اس کتاب پر مجھے تعارفی تقریظ بھی لکھنا کے لیے کہا گیا تو مجھے اس پر مختصر تقریظ لکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
22ستمبر بروز اتوار تینوں کتابوں کی تقریب رونمائی کی رسم گلگت میں ادا کی گئی. گورنر گلگت بلتستان راجہ جلال حسین مقپون تقریب کے مہمان خصوصی جبکہ اسماعیلی ریجنل کونسل گلگت کے صدر انعام اللہ خان میر محفل تھے. مجھے بھی بطور گیسٹ اسپیکر بلایا گیا اور چیف گیسٹ کیساتھ اسٹیج پر عزت دی گئی۔ اس عزت افزائی کے لیے کاظمی صاحب اور احمد سخی جامعی صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے ایک طالب علم کو صاحبان اقتدار و اختیار اور اہل علم و ادب کیساتھ بٹھایا. تقریب میں معزز مہمانوں اور اسکالرز نے تقاریر کیں. ڈاکٹر عبدالعزیز دینار نے تاریخ نویسی اور اس کی ارتقائی منازل پر بہترین خطبہ دیا. معروف مصنف عبداللہ جان ہنزائی سے بھی ملاقات ہوئی اور “علم حقیقی” پر مفصل گفتگو بھی. راقم الحروف کو تقریب کے آخری مراحل میں بولنے کا موقع عنایت کیا گیا. چونکہ سامعین اور ناظرین و منتظمین میں اکثریت اسماعیلیوں کی تھی بلکہ امامتی اداروں سے وابستہ افراد کی کثرت تھی، اس لئے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے رسمی گفتگو کے بعد امامتی اداروں سے تعلق رکھنے والے احباب سے چند صاف صاف باتیں کیں. قطع و برید کے بعد خلاصہ کلام پیش خدمت ہے.
گلگت بلتستان اور چترال کی تعمیر و ترقی بالخصوص تعلیم اور صحت کے شعبے میں اسماعیلی امامتی اداروں کا بہت وسیع کنٹری بیوشن ہے. گلگت بلتستان و چترال میں سوشل سیکٹر میں بھی بنیاد کا پتھر امامتی اداروں کا ہی رکھا ہوا ہے. یہ سارے ادارے آغاخَان فاونڈیشن کے ذیلی ادارے ہی ہیں.
اعتمادی فدا علی ایثار اسماعیلی مکتب فکر کے سرکردہ مذہبی اسکالر ہیں. بڑے نفیس اور ملنسار انسان ہیں۔ انہوں نے مجھے کئی بار بتایا کہ قیام امن اور بہترین معاشرت کے لیے اسماعیلی مکتب فکر کے ذمہ داروں اور اداروں نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے. جب جب اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین تنازعات کھڑے ہوئے تو اسماعیلیوں نے چھوٹے بھائی کا کردار ادا کیا اور اپنی بساط کے مطابق اتحاد و یکجہتی اور یگانگت کی بات کی. میں اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ بےشک گلگت بلتستان میں آبادی کے لحاظ سے اہل سنت اور اہل تشیع آپ سے زیادہ ہیں لیکن کچھ سیکٹرز میں آپ کی کامیابیاں اور ترقیاں عروج پر ہیں. رفاہی کاموں میں آپ نے جال بچھایا ہوا ہے. تعلیمی میدان میں جھنڈے آپ نے گاڑے ہیں. صحت کا شعبہ آپ کے ہاتھ میں ہے. بالخصوص ان تینوں شعبوں میں حکومت بھی آپ کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے چہ جائے کہ کوئی دوسرا پرائیوٹ سیکٹر یا مکتب فکر آپ کی برابری کرے. برابری کیا! صدیاں پیچھے رہ گئے ہیں. برابری کا سوچا بھی نہیں جارہا ہے. پرنس کریم آغاخَان نے بہت سال پہلے “علم اور وقت کا نذرانہ” دینے کی بات کی ہے. یکجہتی کا فرمان جاری کیا ہوا ہے. اپنے کامیاب اداروں میں علاقے کے دیگر معاشرتی اور مسلکی بھائیوں کو بھی شامل کرنے کی ہدایت جاری کی ہے. میں کی ویب سائٹس سے پرنس کریم آغاخَان کی درجنوں تقاریر اور فرامین ڈاون لوڈ کرکے بار بار پڑھ چکا ہوں. مجھے ان کے خطبات اور فرامین میں ہر جگہ انسانیت کی فلاح و بہبود کی بات نظر آئی. کسی خطبے میں یہ دیکھنے کو نہیں ملا کہ وہ فلاں علاقہ یا ملک میں کوئی تعلیمی یا طبی اور رفاہی ادارہ صرف اور صرف آغاخانی کمیونٹی کے لیے قائم کررہے ہیں. اگر میں غلطی پر ہوں تو کوئی میری رہنمائی فرمائے. ہمارے دوست سیدحسین شاہ کاظمی کی دونوں کتابیں بھی چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ آغاخَان کا وژن اور مشن آفاقی ہیں. ان کی سوچ یونی ورسل ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امامتی اداروں میں عملا ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے.
میں یہ بات ببانگ دھل کہہ رہا ہوں کہ میں اسماعیلی تاریخ اور عقائد کی بجائے موجودہ دور کے امامتی اداروں اور ان کے نظم و ضبط اور کام کرنے والوں کے انداز میں دلچسپی رکھتا ہوں. مجھے اس بات کی فکر نہیں رہتی کہ اسماعیلی تاریخ کیا ہے اور انکے مذہبی عقائد و رسومات کیا ہیں. نہ اس کی ضرورت ہے. میں ہمیشہ اس کھوج میں رہتا کہ امامتی ادارے اور اسماعیلیوں سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد اور ان کے بنائے ہوئے ادارے کن کن نئے شعبوں میں قدم رکھ رہے ہیں اور علاقائی و سماجی مسائل کے حل میں کتنی کنٹری بیوشن رکھتے ہیں. میں جب بھی کسی نئی چیز کا جائزہ لیتا ہوں جو بالخصوص گلگت بلتستان میں جدید انداز میں کیا جا رہی ہوتی ہے تو اس کے اولین لوگ اسماعیلی اسکول آف تھاٹ سے تعلق رکھنے والے ملتے ہیں. فلاح و بہبود، طب اور تعلیم اور ووکیشنل ایجوکیشن پر تو پہلے سے ہی ان کا سکہ بیٹھ چکا ہے مگر ہوٹل مینجمنٹ، ٹیکنیکل ایجوکیشن و ٹریننگ، چھاپہ خانے، ٹورازم، پریس اور میڈیا، سوشل ایکٹیویٹیز، ویب میڈیا، جدید قسم کے شاپنگ مال اور یوٹیلٹی اسٹوز، چھوٹی صنعتیں، آن لائن بزنس، آن لائن ایجوکیشن، کوہ پیمائی، اولمپکس کھیلیں اور بینکنگ سیکٹر میں بھی بہت آگے جاچکے ہیں.ان تمام سیکٹرز میں پرواز اتنی بلند ہے کہ علاقے کے دیگر لوگ دوربین لگاکر بھی آپ کا تعاقب نہیں کرسکتے.
یاد رہے کہ ان جدید علوم وفنون میں اگر آپ نے اکیلے سفر طے کیا اور آپ کے دائیں بائیں کے لوگ پیچھے رہ گئے تو یقینا پھر محرومیوں نے جنم لینا ہے. پھر دہشت گردی بھی ہوگی. قتل و غارت بھی ہوگا. چھینا جھپٹی بھی ہوگی. پھر حسد، ضد، کینہ، بغض، عداوت، شقاوت، جہالت کا طوفان بدتمیز کھڑا ہوجائے گا. معاشرتی انصاف ناپید ہوگا اور سماجی عدل گم گشتہ ہوجائے گا تو خود بخود معاشرے میں انارکی پھیلے گی. دیگر لوگ لاشعوری میں اپنی محرومیوں کا بدلہ غلط انداز میں لیں گے جس سے پورا معاشرتی نظام زوال کا شکار ہوگا. پھر قیام امن کی کوئی سی کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہوگی. یقینا اس میں دیگر سے زیادہ نقصان آپ کا ہوگا. آپ کی ترقی بھی رک جائے گی. ادارے بھی بیٹھ جائیں گے. یقینی بات ہے کہ پورا جی بی جسم کی مانند ہے، جسم کے کئی حصے گل سڑ جائیں گے تو سالم حصے بھی بری طرح متاثر ہونگے.
یہ بودی دلیل بار بار دی جاتی ہے کہ امامتی ادارے کسی کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ان کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ عملا ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
کیا کے اسکولوں اور کالجز میں اسماعیلیوں جتنی تعداد دیگر مکاتب فکر کے طلبہ و طالبات کی بھی ہے؟
کیا ،اکنامک پلاننگ بورڈ، سلور جوبلی ڈیلویپمنٹ، ہاوسنگ بورڈ وغیرہ کے ثمرات اسماعیلیوں کی طرح دیگر کمیونٹی کے لوگوں اور علاقوں کو بھی مل رہے ہیں؟
کیا DJ اسکولز کا چین گلگت بلتستان کے تمام علاقوں میں موجود ہیں؟
کیا یعنی آغاخَان ہلیتھ سروس، ہیلتھ بورڈ اور ہیلتھ سنٹروں میں جو ویلفیئر سروس اسماعیلی اسکول آف تھاٹ کے لوگوں کو دی جاتی ہے دیگر کمیونٹیز کو بھی ملتی ہے؟
کیا آغاخَان یونی ورسٹی کراچی اور آغاخَان فاونڈیشن کے ذیلی تمام اداروں میں دیگر کمیونٹیز کے لوگوں کو سکالرشپ، نوکریاں اور سہولتیں بہم پہنچائی جاتی ہیں جو اسماعیلیوں کو عنایت کی جاتی ہیں؟
ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے اور یہ بات بھی انڈرسٹوڈ ہے کہ پرنس کریم آغاخَان نے دنیا بھر میں بالعموم اور جی بی میں بالخصوص جتنے بھی ادارے قائم کیے ہیں وہ صرف اپنے معتقدین کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے قائم کیے ہیں. ان کا موٹو ہی انسانیت کی خدمت ہے. ایسے میں امامتی اداروں کے پالسی میکر اور بااختیار احباب کو سمجھ لینا چاہیے کہ آپ نے ان جدید علوم وفنون میں دیگر لوگوں کو بھی شریک کار کرنا ہے. باہمی اخوت اور یگانگت کا حقیقی تقاضا بھی یہی ہے کہ امامتی اداروں سے دیگر لوگ بھی بھرپور مستفید ہوں.
آپ نے اب تک بالخصوص گلگت بلتستان اور چترال میں چھوٹے بھائی کا کردار ادا کیا ہے مگر اب اٹھیں! تعلیم، صحت، رفاہی امور، ہوٹل منیجمنٹ اور ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ٹریننگز اور دیگر فنون میں بڑے بھائی کا کردار ادا کیجے. پرنس کریم آغاخَان کی طرف سے دیے گئے آئین اور وقتا فوقتا جاری ہونے والے فرامین اور خطبات کا ہی لاج رکھتے ہوئے اپنی خوشیوں اور جدید علوم و فنون اور کسب معاش و تلاش روزگار میں دیگر کو بھی شامل کیجے.
یاد رہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں ہمیں غریب ہمسائے کی بہو، بیٹی اور بیوی کی حرکتیں تو بروقت نظر آتی ہیں اور ہم ان نازیبا حرکتوں کوجلد بھانپ بھی لیتے ہیں مگر ان کی غربت اور پیٹ کی بھوک نظر نہیں آتی اور نہ ہی محلے میں رلتے ان غریبوں کے بچے دکھائی دیتے ہیں. جب وہی درد سر بن جاتے ہیں تو پھر رونا رویا جاتا ہے.سینہ کوبی کی جاتی ہے اور دشنام کے سیلاب امنڈ آتے ہیں.
یہ سمجھنے کی بات ہے کہ آپ کو بھی دیگر لوگوں کی خامیاں اور ہٹ دھرمیاں نظر آتی ہونگی. بہت ساری شکایات بھی ہونگی اور شکوے بھی، مگر آپ کو ان کی محرومیوں اور ان میں پائی جانے والی پسماندگیوں کا احساس بروقت کرنا ہوگا. میں آپ کو برقت مطلع کررہا ہوں بلکہ اپنوں کی بے اعتنائیوں اور ناراضیوں کے باوجود آپ کو باخبر کررہا ہوں. آپ سے آپ کے امام کا وژن یعنی وقت اور علم کا نذرانہ دیگر کیساتھ بھی شیئر کرنے کی دہائی دے رہا ہوں. تو کیا آپ میری ان معروضات پر سنجیدگی سے غور کریں گے؟ کیا میں آپ سے کسی ایسے فیصلے کی توقع کرسکتا ہوں جس سے علاقے میں مساوی سطح پر جدید علوم وفنون سے سب مستفید ہوسکیں؟
آپ کے توسط سے دیکر کمیونٹیز کو بھی خبردار کررہا ہوں کہ آپ بھی اپنا انداز فکر و عمل بدل لیجے.مقتضائے حال کو سمجھ لیجیے. مجھے نہیں معلوم کہ کون مجھے کس انداز میں برت رہا ہے لیکن میں کسی کی خوشنودی یا ناراضگی کے لیے نہیں لکھتا اور نہ ہی بولتا. میں وہی لکھتا ہوں جو محسوس کرتا ہوں اور وہی کہتا ہوں جو برحق اور بروقت سمجھتا. اس لیے مجھے لومۃ لائم کا کھبی خوف نہیں رہا. یہ سب کچھ اپنا مطالعہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں. آپ کا مجھ سے اتفاق کرنا ضروری نہیں، ہاں دلیل سے اختلاف کرنے کی بھرپور اجازت ہے.
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔۔۔