ہنزہ نیوز اردو

افسوس ! دکھاوے کی نیکی کرنے کا مہینہ رمضان

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

مہوش ممتاز بیگ

رمضان المبارک مسلمانوں کے ہاں سب سے پاک، مقدس، بابرکت، فضیلتوں، رحمتوں، مغفرتوں، عبادتوں،نیکیوں کا مہینہ ہے-اس ماہ کوتمام مہینوں سے مقدم ماننا اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ خداوندِ متعال نے اسی ماہ میں قرآن مجید (ہدایت والی کتاب) نازل فرمایا- اس ماہ میں مسلمان خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بھوک پیاس کا مظاہرہ کرتے ہیں- بھوک اور تشنہ لب کی حالت میں عبادات کے ذریعے خدا سے لو لگانے کی جد وجہد کرتے ہیں- بہ نسبت دوسرے مہینوں کے اس مہینے کو خدا کے نزدیک سب مہینوں سے بہتر کہا گیا ہے- جس کے دن باقی دنوں، جس کی راتیں باقی تمام راتوں اور جس کی گھڑیاں باقی گھڑیوں سے بہتر ہے -اس ماہ میں روزہ کی حالت میں سانس لینا تسبیح، سونا عبادت، قرآن کی ایک آیت دل سے پڑھنا پورا قرآن مجید ختم کرنے کے برابر سمجھا جاتا ہے- اس ماہ میں خداوندِ متعال اپنے نیک بندوں کو اپنے حضوربخشوا نے کا دعوت دیتا ہے- اسی ماہ کے ذریعے اپنے نیک بندوں کےقدما گناہوں کا مداوا کرنے کا ایک سنہراموقع فراہم کرتا ہے اور اسی ماہ کے ذریعے قربتِ الٰہی حاصل کرنا نصیب ہے-رمضان المبارک کی فضیلت وعظمت کو اپنی اس تحریرمیں لانا دریاکو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے- اس لیے یہاں ایک جملہ ہی کافی ہے کہ اس ماہ کو خدا نے خود سے منسوب کیا ہے کہ “یہ مہینہ میرا مہینہ ہے” اب اس ماہ کے مقام کو جانتے ہوے ہماری بھی بھرپور کوشش رہتی ہے کہ ہم اس ایک ماہ میں اپنے قدما گناہوں کا ازالہ کرے- کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خداکی عنایت اس ماہ میں سب سے زیادہ برستی ہے- پس اس ماہ کی رحمت، فضیلت کے باعث ہم اس ماہ کے سانچے میں ڈھلنے کی جدوجہد میں مگن ہوجاتے ہیں -جو عبادات سارا سال ہم سے محروم رہی اس ماہ میں ہماراان عبادات سے محرومیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے- اسی ماہ میں ہم مسجدوں،عبادات گاہوں کی زینت بنتے ہیں- خدا کے بھیجے گئے احکامات پر بھی تیزی سے عملدرآمداسی ماہ میں ہوتے ہیں- اس ماہ میں ہمارا طرزعمل ہی تبدیل ہوجاتا ہے بالعموم اس ماہ کی برکت کے باعث ہم خدا کے نیک بندے کا درجہ حاصل کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں- اسی ماہِ با برکت کی فضیلت کے سایہ ہم خدا کی عطا کردہ نعمتوں،رحمتوں، فضیلتوں کو جاننے کے قابل اور اس کا شکر بجا لانے کے قابل ہوجاتے ہیں- اسی ماہِ اقدس کی بدولت ہم گناہوں اور برائیوں سے بتدریج دوری اور نیکی ،اچھائی، خوش اسلوبی کو فوقیت دینے میں کامیاب ہوتے ہیں-خدا غفار ہے،اپنے بندوں سے مہرومروت رکھتاہے-اس ماہ میں ہماری التجا کبھی ردنہیں ہوتی بس اسی عقیدے کے باعث ہم خودکومتعین، مومن سمجھ بیٹھے ہیں- اسی ماہ میں  ہمیں تمام وہ ا فعال جس کا ذکر خداوندِ متعال نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا بجالانا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں اورجوراہ خدا نے متعین کیا اس پر ہم روانہ ہو جاتے ہیں- ماناہمیں اس ماہ سے کچھ تقاضے ہیں جوپورا ضرورہوتے ہیں-مگر کیا اس ماہ کا ہم سے  کوئی تقاضا نہیں-خدا لگتی کہوں تو اس ماہ کا سب سے بڑا تقاضا تشنگی ہرگز نہیں،نہ ہی بھوک کی حالت میں مارا مارا پھرنا ہے-بلکہ خداوندِمتعال نے خردمندوں کےلیے اس ماہ میں نشانیاں رکھی ہیں-اس ماہ کا تقاضا ہے کہ تقویٰ وپرہیزگاری کا مضمم ارادہ کیا جائے- خداکے حکم کی تکمیل اس کی خشنودی اس ماہ کا اصل مقصد ہے،خدا کی عطا کردہ نعمتوں کا احساس اس ماہ کا مقصد ہے، حقوق العباد اور حقوق اللہ پورا کرنا، غریبوں، مظلوموں، مسکینوں کا دکھ درد محسوس کرنا ہی اس ماہ کے مقاصد میں شامل ہے- اب حکم الہی، رضاء الہی کو جاننے کے باوجود ہم اس مقام تک پہنچنے میں ناکام کیوں ہو جاتے ہیں؟ اس کی اصل وجہ ہمارا لالچ، ہمارے نفس کا بے قابوپن ہے- میری تحریر اشتعال انگریز ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ یہ ہمارا زعم ہے کہ ہم صرف اس ماہ کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے صرف ایک اسی ماہ میں خود کو خدا کا پرہیز گار بندہ جانتے ہیں- سر بہ سر مہینوں میں صرف ایک مہینے میں خود کو تخیر کے ڈھانچے میں ڈھال لیں، اچھائی اور نیکی کا لبادہ صرف اسی ماہ میں اوڑھاجائے اور ہماری مغفرت کی بشارت ہو چکی- اور آج کل ہم نے اپنے معاشرے میں ایک  نیادستور پیدا کیا ہے جو اس ماہ کے احترام میں اور بھی کارآمد ثابت ہوگا-ہم نے دکھاوا، کفرکواس ماہ کے احترام کے مقابل کھڑا کر دیاہے- خدا نے ارشاد فرمایا نیکی اگردائیں ہاتھ سے کرو توبائیں ہاتھ کو بھی علم نا ہو-اور آجکل ایک نہایت خوبصورت ٹرینڈ ایجاد ہو گیا نیکی کرو پھر شہرِآفاق میں اس کا چرچاواجب ہے-چاہیے پھرجسکی مددکی گئی ہو اس کی عزتِ نفس ہی کیوں نہ مجروح ہو،اس کا استحصال  ہی کیوں نہ ہو- ہم نے تو نیکی، صدقہ ،امداد کے لیے بھی اس خاص ماہ کا انتخاب کیا ہوا ہے- چاہے سربہ سر مہینوں میں کسی غریب کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ ہواور نہ ہی انکےرنج وتردو کی کوئی پرواہ نا ہو لیکن اس ماہ میں خود کو دوسروں کی نظروں میں اعلٰی مقام دینے کے لئے غریبوں کی مدد کرنے میں حد پار کر جائیں گے کہ اس سے خدا بھی راضی اور آس پاس کے لوگ بھی خوش- صرف اسی ماہ میں دنیا کی غلاظت سے دوری، حرام چیزوں سے پرہیز گاری چاہے پھر وہ موسیقی، رقص، مظلوم کا حق مارنا، جھوٹ، غیبت، زنا، حرام کمانا سے آنکھیں پھیرنا ہے اس ماہ کا آخری دن اور پھر وہی افعال جو پورا سال بجالاتے ہیں- اس کا آغاز ہونا ہمارے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں- آج کل تو کسی غریب کو ہزار کا نوٹ دینے کا عزم کیا جائے تو باقاعدہ اس کے لیے فوٹو سیشن کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس غریب آدمی کے ساتھ اتنا بڑا ہونے والا احسان کو سوشل میڈیا کی زینت بنا دیا جاتا ہے اب کوئی اس بات کا بھی خلاصہ کرے کہ اس فعل کا ذکر خدا نے کونسی  الہامی کتاب میں کیا ہے- یا کس فرشتے نے خدا کا پیغام عام انسانوں تک پہنچایا- ظاہر ہے اس سوال کا جواب ہرگز کسی کے پاس نہ ہوگا لیکن یہ فعل بجا لانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا- افسوس اس فعل میں آجکل این جی اوز کا بڑا کردار ہےعموماً غریب کو  راشن ،دو چار عمدہ لباس  اور اگر ممکن ہوتوکچھ رقم اس کےسپردکرنے کے لیے  غریب کے عزت کی لباس کو تار تار کر کے رکھ دیتے ہیں  -محض  اپنی  اور اپنے ادارے کی معاشرے میں ریپوٹیشن بنانے کے لئے- ہم سب کے اندر افہام وتفہیم وافر مقدار میں ہے کوئی شک نہیں ایسا کرنے والے اپنے نامہ اعمال میں کیا جمع کر رہے ہیں کیا ان سے کوئی استفسارنہ ہو گا؟صرف آنتوں کا قل ہواللہ پڑھنےسے کچھ نہ ہو گا- ایک اور برائی ہم میں عام ہے کہ اس ماہ  میں مولوی کا روپ دھار لیں اوجِ کمال حاصل کر لیں پھر  سربہ سر مہینے اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئیں-اس ماہ میں نیک کام بجا لانا بجا  ہے لیکن ہم اسی نیکی، تقوی ٰ پرہیزگاری کو سارا سال بھی  تواپنے اوپر طاری کر کے رکھ سکتے ہیں- ورنہ اس ماہ میں موصول ہونے والے درس پر سربہ سرسا ل عمل کرنے میں یوں ناکامی کا منہ دیکھنا  نہ پڑتا – خدا صرف  اسی ایک ماہ میں تو اپنے بندے کے ساتھ نہیں ہوتا خدا ہر وقت اپنے بندوں  کے شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے نزدیک رہتا ہے -بے شک وہ رتبہ دان ِمحبت ہے-پھر کیوں ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ   یہ مہینہ توصرف  وسیلہ ہے خدا کی قربت حاصل کرنے کا ،خدا سے لو لگانے کا ،کیےگیےگناہوں کا ازالہ کرنے کا ،نیک کاموں کے  درس کے حصول کا -اسی لیے ہمیں چاہیے کہ اب  ہم خود بھی ہوش کے ناخن لیں- ہر برے فعل کا الزام دوسروں پر لگانے سے باز آئیں اس ماہ کو خدا سے قربت کا مہینہ ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے نہ کہ اس ماہ کو  بھی ایک ٹرینڈ کے طور پر استعمال کریں جس میں دکھاوا، کفر، ظلم کو فروغ دیں اور نہ ہی ایسا ہو کہ اس ماہ  سے استفادہ حاصل کریں اور پھر اپنا اصلی روپ دکھانےمیں  دیر نہ لگائیں- اس ماہ میں نیکی کرنے کا حکم ہےقرآن مجید کو صدقے دل سے پڑھنا اور اس پر عمل کرنےکا حکم ہے نہ کہ اس  ماہ میں  زیادہ سے زیادہ قرآن کو صرف ثواب کی نیت سے پڑھا جائے- اس میں جو درس حاصل ہو اس پر سر بہ سر مہینوں میں  عمل کرنے کے لیے ہم کمربستہ ہوں، خدا کے سامنے جو آہ زاری  اس ماہ میں  کریں ہر وقت   ایسے ہی خدا کے سامنے آنے کا عہد کریں ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنی خطا کوشی کو کم کرنے کیلئے کوشاں رہیں –

مزید دریافت کریں۔