[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2016/09/haqqani-logo-and-picture.jpg” ]امیرجان حقانی[/author]
’’ورلڈ پاپولیشن ڈے‘‘ کی مناسبت سے پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے استور میں Family planning: Empowering people, Developing nation کے عنوان سیایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا تھا۔
دیامر استور ڈویژن کے پاپولیشن ویلفئیر آفیسر برادرم میرعظیم خان نے مجھے بھی’’ اسلام میں بچوں کے حقوق اور فیملی پلاننگ ‘‘کے موضوع پر مقالہ پڑھنے کی دعوت دی تھی۔اس سیمینار کے چیف گیسٹ جناب فداحسین صاحب تھے۔جو پاپولیشن ویلفیئر کے ساتھ دیگر پانچ محکموں کے بھی سیکرٹری ہیں۔دیگر معزز مہمانان گرامی اور خواتین و حضرات کی بڑی تعداد نے سیمنار میں شرکت کی۔پاپولیشن ویلفیئر کے ڈیموگرافر برادرم محمدزاہد اور میرعظیم خان نے اپنی معلوماتی تصویری پریزنٹیشنز سیشرکا محفل کو محظوظ کیا۔مختلف اسکولوں کے طلبہ و طالبات نے بھی ملی نغموں کے ساتھ نعت و نظم سیدل جیت لیے۔محترم فدا حسین صاحب نے بھی بطور چیف گیسٹ ایک بہترین سپیچ کی۔مجھے چونکہ مقالہ پیش کرنا تھا اس لیے سب سے زیادہ مجھے وقت دیا گیا۔میری جو گزارشات تھی ان کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں، ملاحظہ کیجیے۔
’’بچے بنی نوع انسان کی نسلِ نو ہیں۔ دنیا کے ہر معاشرے میں بچوں کا معاشرتی اور اخلاقی مقام ہے ۔ بہت سے ایسے امور ہیں جن میں بچوں کو بھی تحفظ درکار ہوتا ہے۔ بچے نابالغ ہوتے ہیں اس لیے بہت ساری ذمہ داریاں والدین پر عائد ہوتی ہیں۔عصر حاضر میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے دنیا کے مختلف حصوں میں کام ہورہا ہے۔مختلف این جی اوز اور اداریمختلف مدوں میں کام کرتے ہیں۔بہت سارے ممالک میں بچوں کے حقوق پر قانون سازی بھی کی جاچکی ہے دورِ جدید میں بچوں کے حقوق کا تحفط کرنے والی نمایاں دستاویز United Nations Convention on the Rights of the Child-1980 ہے۔ جس میں بچوں کے بنیادی انسانی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے۔
اسلام نے بچوں کو بھی وہی مقام دیا ہے جو بنی نوع انسانیت کے دیگر طبقات کو حاصل ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں کے ساتھ جو شفقت اور محبت پر مبنی سلوک اختیار فرمایا وہ معاشرے میں بچوں کے مقام و مرتبہ کا عکاس بھی ہے اور ہمارے لیے راہِ عمل بھی۔ اسلام میں بچوں کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اسلام نے بچوں کے حقوق کا آغاز ان کی پیدائش سے بھی پہلے کیا ہے۔ بچوں کے حقوق کا اتنا جامع احاطہ کہ ان کی پیدائش سے بھی پہلے ان کے حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے دنیا کے کسی نظامِ قانون میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔اسلام نے جو حقوق بچوں کو بلاتفریق(لڑکاولڑکی) عطا کیے ہیں ان کی ایک جھلک یہ ہے۔
قبل از پیدائش حقوق دیے گئے حقوق یہ ہیں۔زندگی کا حق،، وراثت کا حق، وصیت کا حق، وقف کا حق، تاخیرِ اِقامتِ حد کا حق، نفقہ کا حق، فطرانہ کا حق، اسی طرح پیدائش کے بعد جو حقوق اسلام نے عطا کیے وہ یہ ہیں۔زندگی کا حق،آدابِ اِسلامی سے شناسائی کا حق،حسنِ نام کا حق،نسب کا حق،رضاعت کا حق،پرورش کا حق،تربیت کا حق،شفقت و رحمت کا حق،عدل کا حق،یتیم کا حق،حقوقِ لقیط وغیرہ ہیں۔ ان تمام حقوق پر مفصل بات کی گنجائش تو نہیں ہوگی تاہم چند ایک کو مختصر عرض کیے دیتا ہوں۔
اسلام نے بچے کی ابتدائی دنوں سے اس کے خوراک کا بھی حکم دیا ہے۔پیدائش کے بعد بچے کو اپنی حفاظت اور افزائش کرنا اور خوراک کا اہتمام کرنا ناممکن ہی ہے۔اللہ تعالی نے ماں کے اندر بچے کی قدرتی محبت و شفقت کا جذبہ موجزن کیا ہے۔اسی جذبہ کی وجہ سے ہی ماں بچے کو دودھ پلانے پر تیار ہوجاتی ہے اور اسلام نے عورت پر واجب قرار دیا ہے کہ وہ دو سال تک بچے کو دودھ پلائے۔جدیدمیڈیکل ریسرچ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ یہ دوسالہ مدت ہر طرح سے بچہ کی صحت کے لیے ضروری ہے۔جدید طبی تحقیقات یہ بھی کہتی ہیں کہ
بچہ کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کے پیشِ نظر دو سال کی مدتِ رضاعت ضروری ہے۔اسلام کی آفاقی تعلیمات کا معجزہ یہ بھی ہے ک آج کے جدید دور کی آپ ٹوڈیٹ تحقیقات بھی ان احکام کی تائید و تصویب کرتی ہیں۔اسلام نے ہزاروں سال پہلے جن تعلیمات کا حکم دیا تھاان کی تائید وتصدیق آج کی سائنس کررہی ہے اور درست نتیجے پر پہنچ بھی رہی ہیں۔
ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر مردوں کا معاشرہ کہلایا جاتا ہے۔ آج کے جدید دو میں بھی بچوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو فورا لڑکا ہی ذہن میں آتا ہے۔اگر میری بات پر یقین نہیں آتا تو عصمت چغتائی کے ناول اور افسانے ہی پڑھ لیجیے اور ان کی آب بیتی بھی۔وہ اس معاشرتی تفریق کو درست طریقے سے بیان کررہی ہوتی ہے۔ہم میں سے ہر ایک اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہے کہ ہم اپنے قول اور فعل سے لڑکا اور لڑکی میں تفریق نہیں کرتے کیا۔۔؟ لیکن اسلام نے کبھی یہ تفریق نہیں کی۔حدیث شریف میں ہے کہ جس کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ انہیں جوان ہونے تک کھلاتا پلاتا رہے تو وہ دونوں اسے جنت میں لے جائیں گی۔اسطرح کی اور بھی احادیث ہیں۔ اس حدیث میں صرف کھلانے پلانے کی بات ہے جس کا اتنا بڑا اجر ہے۔ بچیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے دیگر مسائل کا حل کرنے والے باپ بھائی کو کتنا اجر مل سکتا ہے اس کا صرف اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔بہر صورت بچوں کی اچھی تربیت کرکے انہیں اچھا، ذمہ دار اور مثالی مسلمان بنانا ماں باپ اور سرپرستوں کی اولین ذمہ داری ہے۔
اسلام نے یتیم بچوں کے حقوق پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔مغربی ممالک میں ان بچوں کے لیے بڑی بڑی تنظیمیں کام کرتی ہیں۔ یہ بات ہمارے لیے بھی باعث خوشی ہے کہ ہمارے ملک میں بھی یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے ادارے قائم کیے گئے ہیں تاہم باعث تشویش یہ ہے کہ ظالم مافیاز یتیموں کا مال ہڑپ کرجاتیں ہیں۔قرآن حکیم میں مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، ان کے اموال کی حفاظت اور ان کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور ان کے ساتھ زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنے والے پر وعید کی گئی ہے۔
ایک بات میں خصوصیت کے ساتھ عرض کرنا چاہونگا ، چونکہ آج کا پروگرام اس بات کا متقاضی ہے۔ سنجیدہ اور پڑھے لکھے احباب تشریف رکھتے ہیں، خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے۔یہ بات فیملی پلاننگ کے ذمہ داروں کے علم میں بھی لانا چاہتا ہوں تاکہ وہ اس حوالے سے بہترین طریقے اپنے راہ عمل کو تشکیل دے سکے۔ مانع حمل کی تدبیر اگر بطور علاج کے ہو کہ عورت کی صحت متحمل نہیں تو بلاکراہت جائز ہے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ عورت کا بچے پیدا کرنا ایک فطری عمل ہے، جو عورتیں اس فطری عمل کو روکنے کے لئے غیرفطری تدابیر اختیار کرتی ہیں وہ اپنی صحت کو برباد کرلیتی ہیں۔ ایسی عورتیں ہر قسم کی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ فقر اور احتیاج کے خوف سے یا کثرتِ اولاد کو روکنے کے واسطے ضبطِ تولید کرنا گناہ ہوگا۔قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
ولا تقتلوا اولادکم خشیۃ ِ املاق نحن نرزقہم واِیاکم ا ن قتلہم کان خِطئا کبِیرا‘‘
اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے
لیکن کسی خاص عذر،مثلا عورت کی صحت مزید بچے پیدا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو،یا مرد اور عورت ایسی کیفیت میں مبتلا ہوں کہ مزید بچوں کی درست طریقے سے تربیت کرنا ان کے لیے نامممکن ہو اور وہ تربیت کرنے سے قاصر ہوں تو مانع حمل تدابیر میں کوئی مضائقہ نہیں۔اس حوالے سے معاشرے میں شعور و آگاہی پھیلانے کی اشد ضرورت ہے۔ فیملی پلاننگ کے حوالے سے ہمارے ہاں عام ذہنوں میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ اسلام کے اصولوں کے بالکل مخالف مغربی فکر ہے۔ اس میں سرکار کے ساتھ فیملی پلانگ والوں کی بھی بڑی غلطی ہے۔انہوں نے کبھی بھی سنجیدگی سے اس حوالے سے شعور پھیلانے کی کوشش نہیں کی ہے۔حد تو یہ ہوگئی ہے کہ پولیو جیسی موذی مرض سے بچاو کے قطروں سے بھی لوگ اس لیے کنی کتراتے ہیں کہ یہ بھی خاندانی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔
آبادی کا بڑا حصہ دیہی علاقوں میں ہے۔دیہی علاقوں میں خواتین کو خصوصیت کے ساتھ شعور دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ان کو شعور و آگاہی دیے بغیر ان کو مانع حمل کی ادویات کھلانا اور تدابیر پراکسانابہت احمقانہ بات ہے۔ عام لوگوں کے ذہنوں میں اس سے غلط تاثر قائم ہوتا ہے۔میں خود اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ ایک دیہاتی عورت کی شادی کے بعد پندرہویں سال تک گیارہ بچے پیدا ہوئے، جب اس نے زچگی کے آخری دنوں میں اپنی اولاد کی ہسٹری لیڈی ڈاکٹر کو بتلائی تو اس لیڈی ڈاکٹر نے اس کو سمجھانے اور شعور دینے کے بجائے اس کو جہالت اور بیوقوفی کے طعنے دیے اور اس کے شوہر کو بھی خوب جی بھر کر سنایا۔ساتھ یہ بھی ارشاد کیا کہ یہ بہت خطرناک کیس ہے۔ تم مر گئی تو میں کوئی ذمہ دار نہیں ہوں۔ وہ دیہاتی خاتون کثرت زچگی کی وجہ سے کئی امراض کا شکار تو تھی لیکن ڈاکٹر کی ڈانٹ کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا ، کیونکہ اس کو اس حوالے سی کسی نے سمجھانے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اور نہ ہی اس کے پاس اسلام کے زریں احکام موجود تھے۔ڈاکٹر کی غصیلی تقریرسننے کے بعداس نے انتہائی سنجیدگی سے کہا کہ ڈاکٹر صاحبہ آپ میری موت اور حیات کی مالکہ مت بنو،زندگی اور موت میرے اللہ کے ہاتھ میں ہے آپ دوا لکھ دیں۔ایسی ہزاروں لاکھوں خواتین ہیں جو کثرت زچگی کی وجہ سے ہر قسم کی امراض کا شکار بن چکی ہیں اور بڑھاپے کے دنوں میں سخت تکالیف سے دو چار ہوتی ہیں اور ان کو فیملی پلاننگ کے حوالے سے درست طریقے سے سمجھایا جائیا ور ان کے سامنیاسلام کے آفاقی قوانین اور جدید میڈیکل کیسانئسی تحقیقات کو بھی رکھا جائے تو وہ آسانی سے فیملی پلاننگ کے حوالے سے بات مان جائیں گی۔ اور ان کی صحت بھی برقرار ہوگی اور اولاد بھی ہوگی اوروہ اسقاط حمل اور مانع حمل جیسے گناہوں سے بھی بچ سکیں گی جائز تدابیر اختیار کرکے۔
حاصل کلام کہ اِسلام نے معاشرے کے دیگر افراد کی طرح بچوں کو بھی زندگی کا حق قبل از پیدائش و بعدازپیدائش، تعلیم و تربیت اور دیگر تمام اہم حقوق کی ضمانت دی ہے۔جب بچوں کے حقوق محفوظ ہونگے تو ایک مثالی تہذیب اور ایک کامیاب معاشرہ وجود میں آئے گا۔اسلام نے بچوں کے حقوق کی ضمانت قبل از پیدائش دے کراس بات کی بنیاد رکھی کہ آئندہ کی نسلوں کی بہترین نشوو نما اور انہیں کامیاب شہری بنانے اور فعال رکن بنانے پر زور دیا ہے۔ایک صحت مند ماں ہی ایک صحت مند بچہ جن سکتی ہے۔بصورت دیگر سینکڑوں امراض میں متبلا مائیں معاشرے کو بیمار بچے ہی دی سکتیں ہیں جو یقیناًمعاشرے پر بوجھ ہونگے۔اس سے بچاو کی درست عملی تدابیر ہونی چاہیے۔ان تدابیر میں اسلامی احکامات و ہدایات کی بھی مکمل رعایت ہونا ضروری ہے۔بصورت دیگر معاشرہ فیملی پلاننگ کے نعروں اور تدبیروں کو قبول نہیں کرے گا۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔