[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/08/14089189_1094891187225057_1621058675445395145_n.jpg” ]ہدایت اللہ اختر[/author]
چودہ اگست جشن یوم آزادی پاکستان کے حوالے سے جھنڈوں کی بہار ہے۔ پاکستانی پرچم ہر گاڑی اور بچوں کے ہاتھ میں ہے۔یہ پرچم تو پچھلے ستر سالوں سے متنازعہ خطہ گلگت بلتستان میں لہرا یا جاتا ہے اور ستر سالوں سے ہی پاک سر زمین شاد باد بھی پرچم کے ساتھ لازم ہے اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ باقی دنوں میں کوئی ایک ہوں یا نہ ہوں لیکن چودہ اگست کو اس پرچم کے سائے تلے سب ایک ہیں ۔یہ تو تھی بات جشن آزادی پاکستان کی اس کے علاوہ متنازعہ گلگت بلتستان کے باسی ایک اور جشن بھی مناتے ہیں جشن آزادی گلگت بلتستان۔کوئی بتلائے ہمیں ہم بتلائیں کیا۔جھنڈوں کی بہار کی بات ہو رہی تھی تو ذہن میں جھنڈوں کی ایک کہانی نے دوڑ لگا ئی تھوڑا سا لگام لگایا تو کہانی کچھ یوں بن گئی۔جب پاکستان وجود مین آیا تو گلگت بلتستان میں ریاست جموں و کشمیر کا حکمران گھنسارا سنگھ گورنر تھا اور اس کا نظم و نسق مہاراجہ کشمیر کے ہاتھ میں تھا۔پاکستان بننے کے ٹھیک اناسی دن بعد دو نومبر کو سکاوٹ لائن گلگت میں پاکستان کا پرچم بلند ہوا۔وہ بھی ایک انگریز کے ہاتھوں۔اب یہاں سے بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں ان سوالوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ۔کہا یہ جاتا ہے کہ ایک جھنڈا جو سرینگر میں تیار ہوا تھا جو بعد میں آزاد کشمیر کا جھنڈا بن گیا وہی جھنڈا گلگت کی فضا میں ڈوگروں کے انخلا سے پہلے لہرایا جاتا تھا۔(تصویر میں کرنل حسن خان کے ساتھ حوالدار طلا خان اسی جھنڈے کو لئے ہوئے ہیں ) اس جھنڈے کو سرینگر سے لانے کا انکشاف کرنل مرزہ حسن خان مرحوم کے صاحب زادے کرنل ریٹائرڈ نادر حسن خان نے کیا ہے اس جھنڈے سے متعلق ایک اور سوال بھی ابھرتا ہے کہ اخر کن وجوہات کی بنا پر اس جھنڈے کا گلگت میں لہرانا موقوف ٹھہرا۔۔ ان وجوہات کو بھی ایک طرف رکھ دیں ایک قدم اور آگے بڑھیں آزاد کشمیر کے اس جھنڈے میں کچھ ترامیم کی گئیں تھوڑی سی کمی بیشی کے ساتھ اسے آزاد ریاست گلگت کا جھنڈا بنانے کی خواہش کی گئی ۔ایک آزاد ریاست جو یکم نومبر کو گلگت میں وجود میں آئی اوریکم نومبر کو ہی اپنا وجود کھو بیٹھی اور صوبیدار میجر بابر خان کا سلایا ہوا پاکستانی جھنڈا جسے دو نومبر کو میجر برون نے گلگت کی فضا میں بلند کیا کے فوراً بعد الحاقی بن گئی تب سے اب تک الحاقی اور متنازعگی کے چکر میں چکرکھا رہی ہے۔ ان جھنڈوں کے علاوہ ایک اور جھنڈے کا تذکرہ بھی ملتا ہے اور یہ جھنڈا سیاسی جھنڈا کہلاتا ہے۔بقول ایڈوکیٹ جوہر علی مرحوم جب سردار عالم خان گلگت پہنچے تو یہ طے ہوا تھا کہ گلگت بلتستان کو خیبر پختونخواہ (اس وقت کا صوبہ سرحد)میں شامل کیا جائے گا جس پر گلگت والوں نے ریاست کشمیر کے اس خطے کو صوبہ خیبر پختونخواہ( اس وقت کا صوبہ سرحد)میں ضم کرنے کی شدید مخالفت کی اور راتوں رات کشمیرکی سیاسی پارٹی مسلم کانفرنس قائم کی گئی اور اس کے جھنڈے تلے یو این او کے وفد کے سامنے احتجاج بلند کیا گیا۔جس کے بعد گلگت بلتستان کو صوبہ خیبر پختونخواہ سے ملانے یا ضم کرنے کا منصوبہ ترک کیا گیا ۔ اس وقت پاکستان میں دو جھنڈے ایک قومی اور ایک ریاستی فضا میں بلند ہیں۔ریاستی جھنڈا آزاد کشمیر میں اور پاکستانی جھنڈا پاکستان بھر میں۔اور گلگت بلتستان جو پاکستان کے زیر انتظام ریاستی خطہ یا متنازعہ خطہ ہے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم سرکاری عمارتوں میں لہریا جاتا ہے۔۔۔ یکم نومبر 2018کو ایک اور جشن آزادی منانے کے لئے پاکستانی جھنڈے کے ساتھ حاضر ہونگا، خدا حافظ۔۔۔ جھنڈا ہمارا سلامت رہے